گجرات کے چوہدری زیادہ سیانا بننے کے چکر میں مارے گئے
عمران خان کے دو قریبی ساتھیوں جہانگیر ترین اور علیم خان کی جانب سے کھل کر انکے سامنے آجانے کے بعد اب پنجاب کی سیاست مکمل بدلتی دکھائی دیتی ہے اور کل تک اپوزیشن جماعتوں کی توجہ کا مرکز رہنے والے
گجرات کے چوہدری ذیادہ سیانا بننے کے چکر میں مکمل طور پر کھڑ کتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
کل تک پنجاب اسمبلی میں دس نشستیں اور قومی اسمبلی میں پانچ نشستیں رکھنے والی قاف لیگ اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں پیپلز پارٹی اور نواز لیگ سے منتیں کروا رہی تھی لیکن اب جو صورتحال بنتی دکھائی دیتی ہے اس میں چودھری خود منت ترلوں پر اتر آئیں گے لیکن پنجاب اسمبلی کے سپیکر شپ پھر بھی نہیں بچا پائیں گے۔
ترین گروپ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ جب پنجاب میں عثمان بزدار کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی جائے گی تو ساتھ میں سپیکر اسمبلی کے خلاف بھی تحریک جمع کروائی جائے گی۔ ان کا دعوی ہے کہ ترین اور علیم گروپ کو پنجاب میں پچاس سے زائد جبکہ قومی اسمبلی میں 30 کے قرین اراکین کی حمایت حاصل ہے، چنانچہ وزیراعظم اور وزیراعلی پنجاب کا اپنے عہدوں پر برقرار رہنا ناممکن ہوچکا ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کے اعلان کے بعد جہانگیر ترین اور علیم خان کا اکٹھے ہو جانا اس بات کا غماز ہے کہ انہیں اسٹیبلشمنٹ نے بھی گرین سگنل دیدیا ہے۔ حکومتی ذرائع کا کہنا یے کہ علیم خان گروپ کے حیران کُن انداز سے سامنے آنا عمران خان کے لیے واقعی پریشان کن ہے وہ بھی ایک ایسے وقت جب اپوزیشن والے انکے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کیلئے قومی اسمبلی کا سیشن بلانے کو مکمل تیار بیٹھے ہیں۔
حکمران جماعت کے لئے جہانگیر ترین اور علیم خان کا اکٹھے ہو کر حکومت کے خلاف کھڑے ہو جانا ایک زبردست دھچکا ہے کیونکہ پارٹی پہلے ہی اپنی جماعت کے ارکان قومی اسمبلی اور اتحادیوں کے ووٹ محفوظ کرنے میں مصروف تھی۔ اب تک ترین گروپ کو رام کرنے یا پھر ق لیگ سے عمران خان کی کھلی حمایت کا اعلان کروانے کی تمام تر کوششیں ناکام ثابت رہی ہیں۔ اس پر ایک اور مصیبت یہ کہ پی ٹی آئی کے علیم خان اور سردار یار محمد رند اچانک سرگرم ہوگئے ہیں اور ایسے لوگوں کے ساتھ میل جول بڑھا رہے ہیں جو عمران خان کو نکال باہر کرنے پر تُلے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ جہانگیر ترین کی طرح علیم خان اور یار محمد رند کا بھی پی ٹی آئی کے درجنوں ارکان پر اپنا اثر رسوخ ہے۔ لیکن عمران خان کو ابھی تک یہ واضح نہیں ہو رہا کہ انکی مخالف تمام قوتیں اچانک کھل کر سامنے کیسے آ رہی ہیں۔
یاد رہے کے عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے اعلان سے پہلے اسٹیبلشمنٹ نے واضح طور پر اپوزیشن کو سیاست میں نیوٹرل رہنے کی یقین دہانی کروا دی تھی۔ اسی لیے ماضی کے برعکس، اس مرتبہ اسٹیبلشمنٹ کے قریب سمجھے جانے والے گجرات کے چوہدریوں اور ایم کیو ایم کو اسٹیبلشمنٹ سے کوئی سگنل نہیں مل رہا اور اسی لیے یہ اپنی فیصلہ سازی میں بھی کنفیوژن کا شکار ہیں۔ پی ٹی آئی کے اتحادی ق لیگ اور ایم کیو ایم والے یہاں ہیں اور نہ وہاں۔
دوسری جانب کافی عرصہ بعد، نون لیگ، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی ف والے کھل کر اعتراف کر رہے ہیں کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ بظاہر نیوٹرل نظر آ رہی ہے۔ لیکن سچ تو یہنہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی حمایت نہ ہونا وزیراعظم اور ان کی حکومت کیلئے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔
اپوزیشن کے چہروں سے لگ رہا ہے وہ ہاریں گے
لاہور میں چوہدریوں کے ساتھ ملاقات میں حمایت نہ ملنے کے بعد عمرانخان نے پشاور کی ایک اہم ترین عسکری شخصیت کو اپنا اثر استعمال کرنے کو کہا تھا جس نے چیئرمین سینٹ صادق سجرانی کو چوہدریوں سے ملاقات کے لیے بھیجا۔ تاہم ق لیگ کی قیادت بظاہر زیادہ سیانا بنتے ہوئے اپنا ریٹ بڑھانے کے چکر میں ہی ماری گئی۔ اب علیم خان کی جانب سے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا امیدوار بننے کے بعد چوہدریوں کو نہ تو اپوزیشن یہ عہدہ دے سکتی ہے اور نہ ہی عمران خان۔ بلکہ حالات تو ایسے ہیں کہ پرویز الہی کی سپیکر شپ بھی خطرے میں دکھائی دیتی ہے۔