کے پی میں 40ارب کا کرپشن سکینڈل 200ارب تک پہنچنے کاخدشہ

گنڈاپور سرکار میں 40 ارب روپے کی کرپشن کا سکینڈل سامنے آنے کے بعد خیبرپختونخوا کے صوبائی سرکاری محکمے ایک دوسرے کے آمنے سامنے آ گئے۔ خیبرپختونخوا اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی جانب سے محکمہ خزانہ، مواصلات و تعمیرات اور اکاؤنٹینٹ جنرل آفس کے افسران کو معطل کرنے اور تین دن کے اندر رپورٹ طلب کرنے کے احکامات جاری کیے جانے کے بعد سرکاری محکمے 40 ارب روپے کی خردبرد اور بدعنوانی کے بڑے سکینڈل پر ایک دوسرے سے الجھ پڑے اور ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرانے لگے۔
ذرائع کے مطابق صوبائی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے خبردار کیا ہے کہ اگر خیبرپختونخوا 40 ارن روپے کرپشن سکینڈل کی مکمل چھان بین کی گئی تو یہ رقم 200 ارب روپے سے بھی تجاوز کر سکتی ہے، جس میں اعلیٰ افسران اور سیاسی ٹاؤٹس بھی ملوث ہونے کا امکان ہے۔ ذرائع کھ مطابق محکمہ C&W کے سیکرٹری نے بڑی مالی بدعنوانی کی تصدیق کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ یہ رقم محکمہ خزانہ، اے جی آفس اور ان کے اپنے اکاؤنٹس سیکشن کی ملی بھگت سے نکلوائی گئی۔
خیال رہے کہ 40 ارب روپے کی خردبرد کی خبر سامنے آنے کے بعد سے صوبے بھر میں ہلچل مچی ہوئی ہے اور ہر کوئی اپنی صفائیاں پیش کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق ملکی سیاسی عوامی حلقوں میں جب گنڈاپور سرکار کی کرپشن کا خوط چرچا ہوا تو سپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی نے صوبائی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا خصوصی اجلاس طلب کیا۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا ہنگامی اجلاس سپیکر بابر سلیم سواتی کی زیر صدارت منعقد ہوا، جس میں اراکین اسمبلی، مشیر خزانہ مزمل اسلم، ڈائریکٹر نیب، اکاؤنٹنٹ جنرل، ڈی جی آڈٹ، سیکرٹری خزانہ، سیکرٹری C&W اور دیگر متعلقہ افسران نے شرکت کی اجلاس میں کوہستان میں ایک سرکاری فنڈ سے 40 ارب روپے سے زائد کی کرپشن پر غور کیا گیا۔ اجلاس میں 40 ارب روپے کی خردبرد کے انکشاف کے بعد سامنے آنے والے شواہد، ادارہ جاتی ناکامیاں اور مجرمانہ غفلت کا بھی تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ سپیکر نے اس مالی بدعنوانی پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ بدعنوانی صرف کوہستان تک محدود نہیں بلکہ دیگر اضلاع خصوصاً قبائلی علاقوں میں بھی ایسے واقعات ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ نیب پہلے ہی تحقیقات شروع کر چکا ہے اور اب اسمبلی کی سطح پر مکمل چھان بین ضروری ہے۔اکاؤنٹنٹ جنرل نصرالدین نے اجلاس کو بتایا کہ 2024 میں اس اکاؤنٹ میں کرپشن کا انکشاف ہوا جس کے بعد اکاؤنٹ بند کر دیا گیا۔ 2016 سے اب تک اکاؤنٹ نمبر 10113سے 181 ارب روپے جمع ہوئے جبکہ 206 ارب روپے نکلوائے گئے، جس میں 24 ارب روپے کی کمی بیشی ہے۔ سپیکر نے سوال کیا کہ جب اکاؤنٹ میں رقم نہیں تھی تو 24 ارب روپے کیسے غائب ہو گئے اور اتنی بڑی کرپشن سینئر افسران کی نگرانی میں کیسے ممکن ہوئی؟ چھ سال تک اکاؤنٹ آفس کیا کرتا رہا؟ اس پر اے جی نے وضاحت دی کہ ضلعی سطح پر فنڈز کی نگرانی ڈسٹرکٹ اکاؤنٹس افسران کرتے ہیں اور ان کے دفتر اور محکمہ خزانہ کے درمیان ہمیشہ تنازع رہا ہے۔ سپیکر نے اس وضاحت کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے AG پر گول مول باتیں کرنے کا الزام لگایا۔سیکرٹری C&W اسرار خان نے واضح طور پر اعتراف کیا کہ یہ رقم ان کے اکاؤنٹس سیکشن، AG آفس اور محکمہ خزانہ کی ملی بھگت سے نکلوائی گئی۔ انہوں نے کہا کہ چیکس پر دستخطوں کا جائزہ لیا جائے تو پوری کہانی سامنے آ جائے گی۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ اتنی بڑی رقم نکالی جا رہی تھی تو محکمہ خزانہ اور AG آفس کو کیسے خبر نہ ہوئی؟ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا C&W، خزانہ اور AG آفس نے مل کر یہ رقم نکلوائی، تو انہوں نے جواب دیا، “جی بالکل۔ تاہم”سیکرٹری خزانہ نے ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ یہ اکاؤنٹ ان کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔ سپیکر نے اس مؤقف کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ایسی بے قاعدگیوں کی ذمہ داری کسی صورت میں محکمہ خزانہ سے ختم نہیں ہو سکتی۔ سپیکر نے 40 ارب روپے کے کرپشن سکینڈل کی جامع تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے اجلاس موخر کر دیا۔
خیال رہے کہ نیب کی جانب سے سامنے آنے والی ایک رپورٹ میں خیبر پختونخوا کے سرکاری بینک اکاؤنٹس سے 40ارب روپے سے زائد کی خوردبرد اور مالی بدعنوانی کا انکشاف ہوا ہے۔ جس کے بعد خیبر پختونخواہ کرپشن اسکینڈل کو پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے مالیاتی اسکینڈلز میں سے ایک قرار دیا جا رہا ہے۔ جس کے بعد کرپشن کی زد میں آنے والے 50کے قریب بینک اکاؤنٹس منجمد کردیئے گیے ہیں جبکہ نیب نے تحقیقات کا دائرہ وسیع کردیا ہے۔ خیبرپختونخوا کے سرکاری بینک اکاونٹس میں اربوں روپے کے ہیر پھیر کی تحقیقات کے دوران مبینہ طورپر ایک حیران کن انکشاف ہوا ہے کہ ایک ڈمپر ڈرائیور ممتاز کے اکاؤنٹس میں تقریباً ساڑھے چار ارب روپے موجود تھے، جنہیں فوری طور پر نیب نے منجمد کر دیا ہے، نیب ذرائع کے مطابق مذکورہ ڈرائیورنے ایک فرضی کنٹسٹرکشن کمپنی بنا رکھی تھی۔ شواہد کے مطابق کل ملا کر اسکے اکاؤنٹس میں تقریباً 7 ارب روپے مشکوک ٹرانزیکشنز کے ذریعے جمع کرائے گئے تھے۔
نیب حکام کے مطابق ابتدائی تحقیقات میں یہ بھی انکشاف ہوا ہےکہ ضلع اپر کوہستان کے سرکاری اکاؤنٹس سے تقریباً ایک ہزار جعلی چیکس بھی جاری کیے گئے ہیں جبکہ اب تک 50 مشتبہ اکاؤنٹ ہولڈرز کی نشاندہی ہو چکی ہے۔ شواہد سے اس ہیر پھیر میں بااثر سیاسی اور اعلیٰ سرکاری شخصیات کی شمولیت کے بھی واضح آثار ملے ہیں۔ جن کے حوالے سے مزید ثبوت اکٹھے کرنے کا سلسلہ تاحال جاری ہے
ذرائع کے مطابق خیبرپختونخوا میں کرپشن بارے خبریں سامنے آنے کے بعد ثبوت محفوظ رکھنے کیلئے نیب نے ضلع اکاؤنٹس آفس،کمیونیکیشن اینڈ ورکس ڈیپارٹمنٹ، سرکاری بینک اور متعلقہ اکاؤنٹس کا ریکارڈ قبضے میں لے لیا ہے ۔کرپشن کے اس بڑے حجم کو دیکھتے ہوئے نیب حکام نے اس معاملے کو ابتدائی انکوائری سے مکمل تحقیقات میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق جیسے جیسے تحقیقات آگے بڑھ رہی ہیں، مزید دھماکہ خیز انکشافات کی توقع کی جا رہی ہے اور امکان ہے کہ صوبائی حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں کے بھی اس کرپشن کی گنگا میں ڈبکیاں لگانے کے ثبوت سامنے آ سکتے ہیں۔