مریم نواز حکومت کی کسان مخالف پالیسی میں شدت کیوں آ گئی؟

مریم نواز شریف کے پنجاب میں برسر اقتدار آنے کے بعد سے صوبے کے کاشتکار اور کسان مسلسل یہ الزام عائد کر رہے ہیں کہ وزیر اعلی کی پنجاب حکومت معاشی طور پر ان کا کباڑا کر رہی ہے۔ اس وقت پنجاب حکومت کی طرف سے متعارف کرایا گیا ای آبیانہ نظام شدید تنقید کی زد میں ہے۔ یاد رہےکہ حکومت نے نہری پانی پر ٹیکس میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے، جس سے کسانوں کی پنجاب حکومت کے خلاف نفرت میں اور بھی اضافہ ہو گیا ہے۔
پاکستانی کسانوں کا کہنا ہے کہ وہ پہلے ہی فصلوں کی کم قیمتوں کی وجہ سے بھاری نقصانات کا سامنا کر رہے ہیں اور اب پنجاب حکومت نے ان پر آبیانہ فیس میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے، جو ان کے نزدیک موجودہ حالات میں کسی طور پر بھی جائز نہیں۔ پنجاب حکومت کی طرف سے متعارف کرائے گئے ای آبیانہ نظام کی بدولت کسان اپنی پانی کی فیس کی صورتحال خود چیک کر سکتے ہیں۔ یہ نظام پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ نے تیار کیا ہے تاکہ آبپاشی کی فیس، جسے کسانوں میں آبیانہ وصولی کے طور پر جانا جاتا ہے، کو منظم انداز میں وصول کیا جا سکے۔ آبیانہ ایسے زمین مالکان سے لیا جاتا ہے ، جن کی زمینیں نہری پانی سے سیراب ہوتی ہیں۔
تاہم پنجاب حکومت کا کہنا ہے کہ ای آبیانہ نظام 2020 میں پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں عثمان بزدار کے دورِ اقتدار کے دوران شروع کیا گیا تھا، جس کے تحت ابتدائی طور پر الیکٹرانک بل آزمائشی منصوبے کے طور پر جاری کیے گے تھے۔ بعد ازاں مریم نواز کی پنجاب حکومت نے اس منصوبے کو بتدریج وسعت دی، تاہم زیادہ تر کسان پرانے نظام کے تحت، جو پٹواریوں اور دیہات کے نمبرداروں کے ذریعے چلتا تھا، آبیانہ فیس ادا کرتے رہے۔ اب مریم کی پنجاب حکومت نے ای آبیانہ نظام کا دائرہ کار پورے صوبے تک پھیلا دیا ہے۔
نئے نظام کے تحت، ہر یونین کونسل کے پٹواریوں کو ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ دیہات کا سروے کریں اور یہ نوٹ کریں کہ کس کسان نے کون سی فصل کاشت کی ہے اور اسی حساب سے متعلقہ کسان کے نام پر آبپاشی کا بل درج کیا جاتا ہے۔ بعد ازاں محکمہ آبپاشی کسانوں کو ای بل جاری کرتا ہے، جنہیں وہ دیگر یوٹیلیٹی بلز کی طرح قریبی بینکوں میں جمع کرا سکتے ہیں۔
ایسے میں پنجاب بھر کے کسان نہ صرف پانی کے بل میں اضافے پر تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں بلکہ ای آبیانہ نظام کے مؤثر ہونے پر بھی سوال اٹھا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس نظام کو صوبہ پنجاب بھر میں مکمل طور پر نافذ کرنے سے پہلے اس میں بہتری کی اشد ضرورت تھی۔ ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کی تحصیل گوجرہ کے کسان شہزاد احمد نے بتایا کہ اس وقت پٹواری اپنا کام صحیح سے نہیں کر رہے اور ہر کسی کو فی ایکڑ بارہ سو روپے کے فلیٹ ریٹ پر پانی کا بل دینا پڑ رہا ہے۔ کٹھور گاؤں کے اس کسان نے کہا کہ ”مریم کی حکومت نے نیا نظام تو متعارف کرا دیا ہے لیکن زمینوں کا ریکارڈ اپ ڈیٹ نہیں کیا گیا۔ کسانوں کو پانی کے ایسے بل موصول ہو رہے ہیں جن پر ان کے بزرگوں کے نام درج ہیں، جو اب اس دنیا میں نہیں رہے جبکہ وہ زمینیں اب تقسیم ہو چکی ہیں اور ان کے کئی مالکان ہیں۔‘‘ اسی علاقے کے ایک اور کسان شفاقت احمد نے بتایا کہ انہیں انکی زمین سے دس گنا زیادہ زمین کا بل موصول ہوا ہے، انکا کہنا تھا کہ حقیقت میں ان کی ملکیت میں اتنی زمین ہے ہی نہیں۔ زمین کے ریکارڈ کے مطابق ان کے پاس چند کنال زمین ہے لیکن محکمہ آبپاشی نے اسے کئی ایکڑ زمین کا بل بھیج دیا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ محکمے کے زمین کے مالکوں سے متعلق ریکارڈ میں شدید خامیاں ہیں۔
پانی کے بل سے پریشان کاشتکار نے بتایا کہ جب وہ بل کی درستی کے لیے پٹواری کے پاس جاتے ہیں، تو وہ کہتے ہیں کہ یہ ان کا کام نہیں، اس لیے محکمہ آبپاشی سے رجوع کیا جائے اور جب وہاں رابطہ کیا جاتا ہے تو وہ ریونیو ڈیپارٹمنٹ کا راستہ دیکھا دیتے ہیں لیکن مسئلہ پھر بھی حل نہیں ہوتا۔ ان کا کہنا تھا، ”یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ بل درست مالک کے نام پر اصل رقبے کے مطابق پانی کا بل بھیجے۔ یاد رہے کہ مریم نواز کی حکومت نے آبپاشی کے لیے نہری پانی کے چارجز کو چار گنا بڑھا دیا ہے۔
شہزاد احمد نے بتایا کہ پہلے بل صرف تین سو روپے فی ایکڑ تھا لیکن اب خریف کی فصل کے لیے بارہ سو روپے فی ایکڑ کے حساب سے بل موصول ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں بالکل اندازہ نہیں کہ ربیع کی فصلوں، جیسے گندم اور مکئی ، جو ان کے علاقے میں زیادہ کاشت کی جاتی ہیں ، پر حکومت پانی کا ٹیکس کتنا عائد کرے گی۔ شہزاد کا یہ بھی کہنا تھا کہ نہریں تو آج کال زیادہ تر خشک رہتی ہیں اور انہیں ٹیوب ویلز کے ذریعے پانی کی طلب پوری کرنا پڑتی ہے، ”ایسی صورت میں آبیانہ فیس بڑھانا مزید عجیب اقدام ہے جبکہ کسانوں کو نہری پانی بھی تقریبا عدم دستیاب ہو۔‘‘ کسانوں کے نمائندے کہتے ہیں کہ یہ اضافہ کسی صورت جائز نہیں، خاص طور پر ایسے وقت میں جب کاشت کار اپنی فصلوں کی پیداواری لاگت بھی پوری نہیں کر پا رہے۔ کسانوں کی ایک نمائندہ تنظیم سے وابستہ خالد کھوکھر نے بتایا کہ آبیانے میں ہوشربا اضافہ کسی طور مناسب نہیں۔ انکا کہنا تھا گندم کی فی من پیداوار کی لاگت 3000 روپے سے زیادہ ہے جبکہ کاشت کاروں کو صرف 2000 روپے فی من دیے جا رہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں اگر ایک سو روپے آبیانہ کا بھی اضافہ کر دیا جائے تو وہ ایک غریب کسان پر لاکھوں روپے کا بوجھ ڈالنے کے مترادف ہے۔