عدلیہ کو الیکشن کے لئےافسران مہیا کرنےکاپابندبنانےکافیصلہ

شہباز شریف حکومت نے الیکشن کمیشن کے عدلیہ کو انتخابات کے انعقاد کے لیے افسران مہیا کرنے کا پابند بنانے کے مطالبے کو 27ویں آئینی ترمیم کا حصہ بنانے کا فیصلہ کر لیا۔ حکومتی ذرائع کے مطابق 27ویں آئینی ترمیم کے مجوزہ ڈرافٹ میں یہ شق بھی شامل کی گئی ہے کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے ذریعے عدلیہ قانونی طور پر پابند ہو گی کہ وہ الیکشن کمیشن کو انتخابات کے انعقاد کے لیے عدالتی افسران فراہم کرے، تاکہ انتخابی عمل کی شفافیت، غیرجانبداری اور قانونی استحکام کو یقینی بنایا جا سکے۔
خیال رہے کہ پاکستان میں انتخابی تاریخ ہمیشہ انتظامی اور عدالتی کردار کے گرد گھومتی رہی ہے، اور ہر الیکشن کے بعد سب سے زیادہ بحث ریٹرننگ افسران یعنی آر اوز کے اختیارات، کردار اور شفافیت پر ہوتی ہے۔ ماضی میں 1970 سے 2013 تک عدالتی افسران الیکشنز میں ریٹرنگ آفیسرز کے فرائض انجام دیتے رہے ہیں ، لیکن عدلیہ نے 2018 کے بعد اپنے افسران کی تعیناتی سے انکار کر دیا تھا اور وجہ یہ بیان کی تھی کہ الیکشن ڈیوٹیوں کی وجہ سے نہ صرف عدالتی کام متاثر ہوتا ہے بلکہ الیکشن کی غیرجانبداری بھی مشکوک ہوجاتی تھی۔ اس انکار کے باعث الیکشن کمیشن کو انتخابات کیلئے حکومتی انتظامی افسران کو آر اوز مقرر کرنا پڑا تھا، جس سے 2024 کے انتخابات میں بدانتظامی، تاخیر اور قانونی پیچیدگیاں پیدا ہوئیں۔ تاہم اب کمیشن نے حکومت سے عدلیہ کے کردار کو بحال کرنے، آر اوز کی ذمہ داریاں مربوط بنانے اور تربیت کا عمل بہتر کرنے کی سفارش کری ہے۔اب الیکشن کمیشن آف پاکستان نے حالیہ تجربات، خاص طور پر 2024 کے عام انتخابات میں پیش آنے والی مشکلات کے بعد، پارلیمان کو تجویز دی ہے کہ الیکشن ایکٹ 2017 میں ترمیم کر کے عدلیہ کو ریٹرننگ افسران اور ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران فراہم کرنے کا پابند بنایا جائے۔
الیکشن کمیشن کی پارلیمان کو بھیجی گئی تجاویز پر مبنی دستاویز میں پہلی بار کھل کر تسلیم کیا گیا ہے کہ عدلیہ کی جانب سے ریٹرننگ افسران اور ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران کی فراہمی سے انکار نے کمیشن کی کارکردگی، شفافیت اور قانونی استحکام پر براہِ راست اثر ڈالا ہے۔ الیکشن کمیشن نے مطالبہ کیا ہے کہ الیکشن ایکٹ 2017 میں ترمیم کرکے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صاحبان کو اس بات کا قانونی پابند بنایا جائے کہ وہ کمیشن کی درخواست پر عدالتی افسران کی خدمات فراہم کریں۔
الیکشن کمیشن حکام کے مطابق ریٹرننگ افسر صرف ایک انتظامی اہلکار نہیں ہوتا بلکہ پورے حلقے کے انتخابی عمل کا محور ہوتا ہے۔ امیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی کی جانچ، پولنگ سٹیشنوں کی فہرست سازی، عملے کی تربیت، ووٹوں کی گنتی، فارم 45 اور 47 جیسے حساس قانونی دستاویزات کی تیاری اور نتائج کے اعلان جیسے مراحل قانونی سمجھ بوجھ اور آئینی مہارت کے تقاضے رکھتے ہیں۔ عدالتی افسران کی شمولیت سے یہ عمل نہ صرف منظم اور مؤثر ہوتا تھا بلکہ انتخابی فیصلے قانونی اور عوامی جانچ پر بھی پورے اترتے تھے۔
تاہم 2013 کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے عدالتی عملے کے کردار کو ’گھٹیا‘ قرار دیا تھا۔ جس پر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ان کے خلاف توہین عدالت کا نوٹس کر دیا تھا۔ اسی تناظر میں 2018 کے عام انتخابات کے بعد اس روایت میں ایک نمایاں تبدیلی آئی۔ اعلیٰ عدلیہ نے اپنے افسران کو انتخابی فرائض کے لیے فراہم کرنے پر شدید تحفظات ظاہر کرنا شروع کیے۔
عدلیہ کا مؤقف تھا کہ عدالتی افسران کی طویل تعیناتی سے عام عدالتوں میں مقدمات کے فیصلے تاخیر کا شکار ہو جاتے ہیں، جس سے شہریوں کے بروقت انصاف کے حق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ججوں کو انتخابی سیاست کے متنازع عمل میں شامل کرنا عدلیہ کی غیرجانبداری کے تصور کو مجروح کرتا ہے، خاص طور پر اس وقت جب یہی عدلیہ بعد میں انتخابی عذرداریوں کی سماعت کرتی ہے۔ بالآخر 2024 کے عام انتخابات سے قبل یہ تحفظات واضح انکار کی صورت میں سامنے آئے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق چیف الیکشن کمشنر کی جانب سے چیف جسٹس پاکستان اور لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے ذاتی ملاقاتوں اور تحریری درخواستوں کے باوجود عدالتی افسران فراہم نہیں کیے گئے۔
عدلیہ کے اس انکار کے بعد الیکشن کمیشن ایک مشکل صورت حال سے دوچار ہو گیا۔ کمیشن کے اپنے افسران کی تعداد پورے ملک میں عام انتخابات کے انتظامات کے لیے ناکافی تھی۔ کئی بڑے اضلاع میں محض تین افسران موجود تھے، جبکہ ان میں دس سے زائد حلقے شامل تھے۔ اس مجبوری کے باعث کمیشن کو ضلعی انتظامیہ کے افسران، جیسے ڈپٹی کمشنر، اسسٹنٹ کمشنر اور دیگر انتظامی افسران، کو ریٹرننگ افسران مقرر کرنا پڑا۔ جس پر مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے سخت اعتراضات سامنے آئے۔ جس کے بعد اب الیکشن کمیشن نے حکومت سے عدلیہ کو انتخابات کے انعقاد کے لیے افسران مہیا کرنے کا پابند بنانے کا مطالبہ کر دیا ہے۔
وفاقی حکومت نے الیکشن کمیشن کے مطالبے کو 27ویں آئینی ترمیم کا حصہ بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔ ماہرین کے مطابق اگر پارلیمان الیکشن کمیشن کے مطالبے پر الیکشن ایکٹ میں ترامیم کی منظوری دے دی تو اس سے انتخابی اداروں اور عدلیہ کے تعلقات کی نوعیت ہمیشہ کے لیے بدل جائے گی۔ بعض قانونی ماہرین اسے انتخابی عمل میں استحکام لانے کی سمت ایک مثبت قدم قرار دیتے ہیں، جبکہ کچھ حلقوں کے نزدیک عدلیہ کو اس طرح انتخابی عمل میں شامل کرنا اس کے غیرجانبدار کردار پر سوالات اٹھا سکتا ہے۔
