پاکستان نے افغان حملہ TTP  کو ٹھوکنے کیلئے استعمال کیا؟

 

 

 

افغان طالبان فورسز کی جانب سے پاکستانی سرحدی پوسٹوں پر فائرنگ کے بعد پاک فضائیہ نے جس شدت سے جواب دیتے ہوئے افغانستان کے بارڈر ایریاز میں تحریک طالبان پاکستان کے ٹھکانوں پر بمباری کی ہے اسکے نتیجے میں ٹی ٹی پی کے سیٹ اپ کو سخت نقصان پہنچا ہے اور اسکے 200 سے زائد جنگجو ہلاک ہو گئے ہیں۔ پاکستان کی جانب سے سخت ترین عسکری رد عمل کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ افغان طالبان کے پاکستانی بارڈر پوسٹس پر حملوں کے وقت افغان وزیر خارجہ ملا متقی انڈیا میں موجود تھے اور پاکستان کو سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دے رہے تھے۔

 

پاک فضائیہ کے فوری رد عمل سے ایسا لگتا ہے کہ پاکستان بھی افغان بارڈر پر تحریک طالبان کے دہشت گرد ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے لیے موقع کی تلاش میں تھا جو اسے مل گیا۔

فوجی ترجمان کے مطابق افغان فورسز اور شدت پسندوں کے ساتھ سرحدی جھڑپوں میں 23 پاکستانی سیکیورٹی اہلکار شہید ہوئے جبکہ 30 زخمی ہوئے۔ ان کے مطابق 200 سے زیادہ افغان طالبان اور ان سے منسلک شدت پسندوں کو ہلاک کیا گیا جبکہ زخمیوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ ترجمان نے دعویٰ کیا کہ افغانستان کی طرف سے بلااشتعال فائرنگ پر جوابی کارروائی میں پاکستانی فورسز نے طالبان کی دو درجن سے زائد بارڈر پوسٹوں، کیمپوں، ہیڈکوارٹرز اور شدت پسندوں کے انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچایا جو پاکستان کے خلاف کارروائیوں میں استعمال ہو رہا تھا۔

 

دوسری طرف طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان کے افغانستان پر مختلف حملوں کے جواب میں کی گئی کارروائیوں میں 58 پاکستانی سکیورٹی اہلکار شہید ہوئے جبکہ 30 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ اتوار کو کابل میں نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ذبیح اللہ مجاہد نے دعویٰ کیا کہ ’جوابی کارروائی‘ کے دوران پاکستان کی 20 چیک پوسٹوں پر قبضہ کر لیا گیا تھا لیکن لڑائی ختم ہونے کے بعد یہ واپس کر دی گئیں۔ ادھر پاکستانی فوج نے بھی سرحد پار طالبان کی 21 پوسٹوں کو تباہ کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

 

یاد رہے کہ کچھ روز پہلے پاک فضائیہ نے تحریک طالبان کے امیر کمانڈر نور ولی محسود کی پناہ گاہ پر کابل میں حملہ کیا تھا جس کے بعد افغانستان نے پاکستان پر فضائی حدود کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا تھا۔ تاہم پاکستان نے دعوؤں کی تردید یا تصدیق نہیں کی تھی۔ وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف کا کہنا ہے کہ اگر افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو گی تو پاکستان کارروائی کرنے کا حق رکھتا ہے جبکہ پاکستانی فوج کے ترجمان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں محفوظ ٹھکانے پاکستان میں دہشتگردی کے لیے استعمال ہو رہے ہیں جنہیں برداشت نہیں کیا جائے گا۔

 

ادھر نئی دہلی میں موجود افغان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی نے پاکستانی سرحدی پوسٹوں پر افغان حملوں سے پہلے کہا تھا کہ افغانیوں کا حوصلہ نہ آزمایا جائے اور انھیں چھیڑنے سے پرہیز کیا جائے۔ انھوں نے کہا تھا کہ اگر ایسا کرنا ہے تو پہلے انگریز سے پوچھیں، سویت یونین، امریکہ اور نیٹو سے پوچھیں، تاکہ وہ آپ کو سمجھائیں کہ افغانستان کے ساتھ یہ کھیل نہیں کھیلا جا سکتا۔ تاہم پاک فضائیہ نے جس بڑے پیمانے پر افغان بارڈر پر موجود دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر بمباری کی ہے اس سے ثابت ہو گیا ہے کہ پاکستان یہ کھیل کھیلنے کی پوزیشن میں ہے۔ اس سے پہلے بھارت نے پاکستان کے ساتھ پنگا لیا تو تب بھی پاکستان نے کامیابی سے یہ کھیل کھیلا تھا۔

 

یاد رہے کہ پاکستان اور افغانستان کے مابین تعلقات تاریخی لحاظ سے ہمیشہ ہی اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں لیکن حالیہ دنوں میں اسلام آباد اور کابل کے مابین کشیدگی کی نوعیت مختلف ہے کیونکہ اس بار کابل میں صدر اشرف غنی یا صدر حامد کرزئی کی نہیں بلکہ افغان طالبان کی عبوری حکومت ہے۔ ماضی میں کابل کی حکومتیں پاکستان پر الزام عائد کرتی رہی ہیں کہ طالبان پاکستان سے افغانستان میں حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں لیکن اس بار پاکستان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی پاکستان پر حملے کر رہی ہے اور افغان طالبان اُن کے خلاف کارروائی نہیں کر رہے۔ تناؤ کا شکار پاک افغان تعلقات ’سانپ سیڑھی‘ کے کھیل جیسے ہیں جن میں تب ایک نیا موڑ آیا جب افغان طالبان کی عبوری حکومت کے وزیر خارجہ امیر خان متقی اپنے پہلے دورے پر نئی دہلی گئے۔

 

پاکستان کے لیے انڈیا کی افغانستان میں دوبارہ آمد نے وہاں کی سرزمین کے پاکستان کے خلاف استعمال ہونے کے خدشات اور تحفظات کو مزید بڑھا دیا ہے۔ خواجہ محمد آصف کا کہنا ہے کہ انڈیا افغانستان کے ذریعے پاکستان سے بدلہ لینے کی کوشش کر رہا ہے اور اُن کے بقول افغانستان میں انڈیا کی سہولت کاری کی جارہی ہے۔ جیو نیوز سے گفتگو میں خواجہ آصف نے کہا کہ افغانستان کی جانب سے پاکستان میں دہشت گردی ایکسپورٹ کرنے کے سبب پہلے سے کشیدہ تعلقات مزید بگڑ رہے ہیں۔ افغانستان کے اُمور کے تجزیہ کار اور پالیسی سازی میں شریک ماہرین کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک میں اعتماد کا شدید فقدان ہے۔ افغان طالبان پاکستان کی ’امیدوں‘ پر پوار نہیں اتر رہے ہیں اور مسلسل دباؤ کے سبب افغان طالبان نئی دہلی سے ہاتھ ملا رہے ہیں جو پاکستان کی ’شکست کے مترادف‘ ہے۔

 

بین الاقوامی مبصرین کا کہنا ہے دونوں ممالک کے مابین بڑھتی ہوئی عدم اعتمادی، انڈیا کے ساتھ تعلقات اور ٹی ٹی پی کے مسلسل پاکستانی فوج پر حملوں نے خطرناک صورتِ حال کو جنم دیا ہے لہذا ایسے میں طالبان سے قطع تعلق پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔ یاد رہے کہ دونوں ممالک ماضی میں اپنے تعلقات کو ’تاریخی اور برادرانہ‘ قرار دیتے تھے لیکن اب پاکستان افغان حکمرانوں کے لیے ’احسان فراموش دشمن‘ جیسے الفاظ استعمال کر رہا ہے۔خیال ریے کہ افغانستان سے امریکی انخلا ممکن بنانے کے لیے امن معاہدے میں پاکستان نے طالبان اور امریکہ کے مابین مذاکرات میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

 

کابل میں صدر اشرف غنی کی حکومت کے خاتمے اور افغان طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان یہ سمجھتا تھا کہ اب کابل میں بننے والی حکومت پاکستان کے خلاف نہیں کیونکہ عمومی خیال یہی تھا کہ افغان طالبان کسی حد تک پاکستان کے زیر اثر ہیں۔ افغانستان میں طالبان کے آنے کے بعد پاکستان کو امید تھی کہ وہاں موجود ٹی ٹی پی اور بے ایل اے کو وہ سپورٹ نہیں ملے گی جو پہلے ملتی تھی اور پاکستان کو لگتا تھا کہ سرحد پر حالات بہتر ہو جائیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔

اس کے برعکس پاکستان میں دہشت گردی بڑھ گئی لیکن تحریک طالبان پاکستان کو محفوظ ٹھکانے بنا کر دینے والے افغان حکمرانوں کا کہنا ہے کہ کہ وہاں کوئی محفوظ ٹھکانے نہیں۔ یہی وہ جھوٹ ہے جس نے اختلافات کو بڑھاوا دیا ہے اور معاملہ ایک دوسرے پر حملوں تک پہنچ گیا ہے۔

نئے وزیراعلی آفریدی کا فوج کے خلاف کھلی بغاوت کا اعلان

پاکستان مسلسل یہ الزام دہرا رہا ہے کہ افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی کے محفوظ ٹھکانوں کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے جس کے شواہد موجود ہیں۔ دوسرا مسئلہ تحریک طالبان کو بھارت کی جانب سے ملنے والی سپورٹ ہے۔ تاہم حالیہ پاکستانی جوابی کاروائی کے بعد امید کی جا رہی ہے کہ پاک افغان سرحد پر موجود تحریک طالبان کی جانب سے حملوں کی شدت میں اب واضح کمی آئے گی۔

 

Back to top button