آرمی چیف کی مدت ملازمت میں اضافہ PTI کیلئےایک بڑا دھچکہ
آرمی چیف کی مدت ملازمت تین سال سے بڑھا کر پانچ سال کیے جانے کا حکومتی فیصلہ اڈیالہ جیل میں بند عمران خان کی سیاست کے لیے ایک بڑا دھچکا قرار دیا جا رہا ہے، بنیادی وجہ یہ ہے کہ عمران خان وہ واحد سیاستدان تھے جنہوں نے جنرل عاصم منیر کی تقرری روکنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا تھا اور ان کی کھل کر مخالفت کی تھی۔
حکومت کی جانب سے سروسز چیف کی مدت ملازمت بڑھانے کا فیصلہ تحریک انصاف کی قیادت کے لیے حیران کن تھا چونکہ وہ ذہنی طور پر اس بڑے حملے کے لیے تیار نہیں تھی۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن نے اس حملے کو روکنے کی سر توڑ کوشش کی لیکن ناکامی اس کا مقدر ٹھہری اور حکومت نے مطلوبہ ترامیم منظور کروا لیں۔ وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ اب آرمی چیف جنرل عاصم منیر نومبر 2027 تک اپنے عہدے پر موجود رہیں گے جس سے ’نظام کو تسلسل ملے گا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں فوجی آمروں سمیت کئی آرمی چیفس نے ’خود اپنے آپ کو ایکسٹنشن دی۔ تاہم ’اب ہم نے تینوں سروسز چیفس کے لیے قانون بنا دیا ہے جس میں کوئی تفریق نہیں کی گئی۔
خیال رہے کہ دونوں ایوانوں یعنی قومی اسمبلی اور سینیٹ نے مسلح افواج کے چیفس کی مدت ملازمت تین سے بڑھا کر پانچ سال کرنے کی منظوری دی ہے۔ بری فوج، بحریہ اور فضائیہ کے سربراہان کی مدت ملازمت بڑھانے کے لیے متعلقہ اداروں کے قوانین میں ترامیم کو پہلے ایوان زیریں قومی اسمبلی نے منظور کیا اور پھر فوراً سینیٹ کے اجلاس میں بھی انھیں منظور کر لیا گیا۔ اس دوران دونوں ایوانوں میں اپوزیشن ارکان نے نعرے بازی کے بعد واک آؤٹ کیا جس سے ائینی ترامیم پاس کروانے میں اور بھی اسانی ہو گئی۔
یاد رہے کہ اس سے قبل آرمی ایکٹ کے تحت آرمی چیف سمیت تمام سروسز چیفس کی مدت ملازمت تین سال مقرر تھی اور ایگزیکٹیو کے اختیارات کے تحت آرمی چیف کو تین سال کی ایکسٹینشن دی جاتی رہی تھی۔ آخری بار مدت ملازمت میں توسیع سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو دی گئی تھی اور ان کی ایکسٹیشن کی منظوری کے لیے پارلیمنٹ میں ایک متفقہ قرارداد بھی منظور کی گئی تھی جس کے بعد ایگزیکٹیو نے ان کی مدت ملازمت میں تین سال کی توسیع کر دی تھی۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے آرمی چیف اور دو دیگر سروسز چیف کی مدت ملازمت 5 سال کرنے کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہاں ایکسٹنشنز کا سلسلہ پیکے فوجی ڈکٹیٹر جنرل ایوب خان کے دور میں شروع ہوا۔ اس کے بعد آٹھ آرمی چیفس کو ایکسٹنشن دی گئی۔ ایوب خان، ضیا الحق، اور پرویز مشرف نے خود اپنے آپ کو ایکسٹنشن دی جو کہ ان کی ذات کے لیے تھیں۔ لیکن اب ہم نے اس بارے ایک قانون بنا کر معاملہ واضح کر دیا ہے۔ اس سوال پر کہ اس کی ضرورت کیوں پیش آئی، خواجہ آصف نے کہا کہ موجودہ حالات میں تسلسل کی ضرورت ہے اور یہ ضروری ہے کہ جو بھی مسلح افواج کا سربراہ ہو وہ اسمبلی اور دیگر اداروں کی پانچ سالہ مدت کی طرح مناسب وقت کے لیے بہتر دفاعی منصوبہ بندی کر سکے۔
جنرل عاصم منیر کا نومبر 2032 تک آرمی چیف رہنے کا امکان
وزیر دفاع نے کہا کہ سروسز چیفس کی مدت میں طوالت سے سیاسی نظام کو استحکام ملے گا جس سے پاکستان میں معاشی استحکام ائے گا۔ انھوں نے واضح کیا کہ ’آرمی چیف کی تعیناتی کا اختیار اب بھی حکومت کے پاس ہی ہے۔ لیکن ہم نے گنجائش نکالی ہے کہ اس حوالے سے کوئی کامن گراؤنڈ نکالی جائے۔ ہم نے نظام کو قانونی اور آئینی شکل میں ڈھالا ہے تاکہ جرنیلعں کی جانب سے قانون کی خلاف ورزی نہ کی جائے۔ وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ کے بقول حکومت نے ترمیم کے ذریعے ایکسٹنشن نہیں بلکہ ’مدت ملازمت کا تعین‘ کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ قانون سازی کسی فرد کے لیے نہیں بلکہ عہدے اور ادارے کے لیے کی گئی ہے۔
مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنا اللہ نے حکومتی اقدام کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ویسے بھی آرمی چیفس کی مدت چھ سال عام ہے۔ یوں آپ سمجھیں کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں ایک سال کی کمی ہوئی ہے۔‘ دوسری طرف قائد حزب اختلاف عمر ایوب نے کہا کہ سروس چیفس کی مدت ملازمت میں توسیع ’ملک اور مسلح افواج کے لیے اچھی چیز نہیں کیونکہ اس سے سینئیر فوجی افسران کی حق تلفی ہوگی۔ تاہم رانا ثنا اللہ نے جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ عمر ایوب خان کے والد جنرل ایوب خان ایک دہائی تک فیلڈ مارشل بن کر پاکستان پر قابض رہے، دادا جان کو تو جرنیلوں کی سنیارٹی کا خیال نہیں آیا تھا لیکن پوتے کو بہت مروڑ اٹھ رہے ہیں۔