فیصل واوڈا کا معافی مانگنے سے انکار، فوج اور عدلیہ کی جنگ تیز
طاقتور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے قریب سمجھے جانے والے فیصل واوڈا کے سپریم کورٹ کے توہین عدالت کے نوٹس کے جواب میں معافی مانگنے سے انکار کے بعد فوجی اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ میں جاری جنگ بڑھنے کا مکان پیدا ہو گیا ہے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے عدلیہ مخالف بیان پر توہین عدالت کے نوٹس کا جواب دیتے ہوئے سابق وفاقی وزیر سینیٹر فیصل واڈا نے غیر مشروط معافی مانگنے سے صاف انکار کردیا ہے جو عدلیہ کے لیے حیران کن ہے۔ فیصل واڈا نے توہین عدالت نوٹس پر جواب سپریم کورٹ میں جمع کرواتے ہوئے کہا ہے کہ انکی پریس کانفرنس کا مقصد عدلیہ کی توہین کرنا نہیں تھا، بلکہ ملک کی بہتری تھا، لہازا عدالت توہین عدالت کی کارروائی آگے بڑھانے پر تحمل کا مظاہرہ کرے۔
انہوں نے استدعا کی کہ توہین عدالت کا نوٹس واپس لیا جائے۔
لیکن اسکے ساتھ ہی فیصل واڈا نے تحریک انصاف کے ترجمان رؤف حسن، سربراہ جمعیت علمائے اسلام (ف) مولانا فضل الرحمن، وزیر اعظم شہباز شریف کی تقریروں کے ٹرانسکرپٹ بھی عدالت میں پیش کر دیے جن میں عدلیہ پر کڑی تنقید کی گئی ہے۔ ان کا موقف ہے کہ اگر ان لوگوں کو عدلیہ مخالف گفتگو پر توہین عدالت کے نوٹس جاری نہیں کیے گئے تو انہیں ہی عدالت کی توہین کا الزام لگانے کے لیے کیوں چنا گیا۔
واضح رہے کہ 17 مئی کو سپریم کورٹ میں سابق وفاقی وزیر سینیٹر فیصل واڈا کی پریس کانفرنس پر لیے گئے از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سابق وزیر فیصل واڈا اور رہنما متحدہ قومی موومنٹ مصطفیٰ کمال کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہوئے طلب کرلیا تھا۔ دونوں رہنماؤں کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت 5 جون کو ہو گی۔
قومی اثاثے تباہ کرنے والوں کا احتساب ہونا چاہیے: نواز شریف
یاد رہے کہ 15 مئی 2024 کو سابق وفاقی وزیر فیصل واڈا نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب پاکستان میں کوئی پگڑی اچھالے گا تو ہم ان کی پگڑیوں کی فٹبال بنائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو جسٹس بابر ستار کی امریکی شہریت کے معاملے پر خط لکھا لیکن 15 روز بعد بھی جواب نہیں آیا، میرا اصرار یے کہ قانون کے تحت مجھے جواب دیا جائے، انہوں نے کہا کہ جسٹس بابر ستار کہتے ہیں کہ جج بننے سے پہلے انہون نے اس معاملے پر تب کے چیف اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ کو بتا دیا تھا، لہازا اگر ایسا تھا تو حوالے سے عدالت کے ریکارڈ روم میں کوئی چیز ہو گی تحریری طور پر جو ان کے موقف کی تصدیق کر سکے، لیکن اب کہا جا رہا ہے کہ ایسی دستاویز رکھی نہیں جاتیں بلکہ ضائع کر دی جاتی ہیں۔
فیصل واوڈا نے کہا تھا کہ آرٹیکل 19 اے کے تحت چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی نے آرڈر دیا کہ ہر پاکستانی کوئی بھی اہم بات کسی سے بھی پوچھ سکتا ہے۔ لیکن یہاں عام پاکستانی تو دور کی بات ایک سینیٹر کو بھی جواب نہیں مل رہا۔ اب ابہام بڑھ رہا ہے، شک و شبہات سامنے آرہے ہیں کہ اس کے پیچھے منطق کیا ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ ایک سال پہلے چیزیں ہوئیں، ایک سال بعد یاد آئیں، تو ایک سال پہلے کیوں نہیں بتایا؟ اب پھر مداخلت ہوئی پرسوں تو الزام لگانے سے کام نہیں چلے گا، اب آپ کو ثبوت دینے پڑیں گے کہ کس نے مداخلت کی، کیوں کی اور اس کے شواہد دیں تو ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں ورنہ تو میں بھی فون اٹھا کر کہوں کہ جج نے کہہ دیا ہے کہ قتل کردو تو اس کا ٹرائل تھوڑے ہی شروع ہو جائے گا۔
فیصل واڈا نے کہا تھا کہ ہمیں جواب نہیں مل رہا، ہمیں بتایا جائے کہ کیا ریکارڈ کے اندر یہ سب لکھا گیا ہے اور اگر ریکارڈ کا حصہ نہیں تو اس کے نتائج ہوں گے، اطہر من اللہ صاحب تو تاریخی فیصلے کرتے ہیں، میرا گمان ہے کہ وہ اصول پسند آدمی ہیں، وہ کسی دباؤ میں نہیں آتے، کسی سے رات کے اندھیرے میں نہیں ملتے تو وہ ایسی غلطی نہیں کرسکتے کہ انہوں نے تحریری طور پر چیز نہ لی ہو، وہ ریکارڈ ہمیں ملنا چاہیے، ہم اسے کیوں نا مانگیں؟ لیکن 16 مئی کو سپریم کورٹ نے سینیٹر فیصل واڈا کی اسی پریس کانفرنس پر از خود نوٹس لے لیا تھا۔