ججز زہریلے بھونڈ بن کر صرف سیاست دان کو کیوں کاٹتے ہیں؟
جسٹس اطہر من اللہ نے بہت سوچ سمجھ کر معزز جج حضرات کے لیے "کالے بھونڈ” یا بمبل بی کا استعارہ استعمال کیا ہے جو ایسا زہریلا ترین کیڑا ہے جس کے جتھے کی صورت میں حملہ آور ہونے سے ڈنک زدہ شخص کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ ماضی میں ایسی مثالیں موجود ہیں۔ لیکن ان کالے بھونڈوں نے آج تک جمہوریت پر حملہ کرنے اور آئین توڑنے والے کسی ڈکٹیٹر کو کاٹنے کی جرات نہیں کی، ان زہرہلے بھونڈوں نے ائین شکن ڈکٹیٹرز کے ہاتھوں پر تو مسلسل بوسے دئیے لیکن سیاست دانوں کے سینے اپنے زہریلے ڈنکوں سے چھلنی کرتے رہے۔
اپنے تازہ تجزیے میں معروف لکھاری سینٹر عرفان صدیقی ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ میں جسٹس اطہر من اللہ کی جانب سے ججز کو ’’کالے بھونڈ‘‘ یا ’بلیک بمبل بی‘‘ قرار دیے جانے کے بعد سے اس اصطلاح پر ملک گیر بحث جاری ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کی طرف سے پانامہ کے حوالے سے ججوں میں ’’کالی بھیڑوں‘‘ کے ذکر پر اٹارنی جنرل نے وضاحت کی کہ وزیر اعظم کا اشارا ماضی کے کچھ ججز کی طرف تھا۔ لیکن پھر بھی جسٹس اطہرمن اللہ نے وزیر اعظم کو واشگاف یہ پیغام دیا کہ’ ’ہم کالی بھیڑیں نہیں، بلکہ کالے بھونڈ ہیں۔‘‘ عرفان صدیقی کے مطابق جسٹس اطہر من اللہ کافی پڑھے لکھے انسان ہیں اور جانتے ہیں کہ اس اصطلاح کا اصل مطلب کیا ہے۔ کالا بھونڈ‘‘سخت زہریلا کیڑا ہے۔ اگر یہ ایک سے زیادہ یعنی لارجر یا فُل جتھہ کی شکل میں ہوں تو ڈنک زدہ شخص کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔
عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ پچھلے دنوں میرے ایک دوست کا فون آیا، وہ سمجھنا چاپتا تھا کہ معزز جج صاحب نے جس کالے بھونڈ کا ذکر کیا ہے وہ آخر ہوتا کیا ہے۔ چنانچہ میں نے اسے بتایا کہ کالا اور زہریلا بھونڈ ایک سچّے، کھرے اور حقیقی مُنصف کی طرح، سب سے یکساں سلوک کرتا ہے۔ اُس کے سامنے گورا آئے یا کالا، بچہ آئے یا بوڑھا، عورت آئے یا مَرد، کسی سے بھی کوئی امتیازی روّیہ روا نہیں رکھتا۔ وہ کسی کی سیاسی وابستگی بھی نہیں دیکھتا۔ کوئی مسلم لیگ (ن) کا ہو یا پیپلزپارٹی کا، پی۔ٹی۔آئی کا ہو یا ایم۔کیو۔ایم کا، سب کو ایک ہی نظر سے دیکھتا ہے اور ترازو کے پلڑوں میں بال برابر جھول نہیں آنے دیتا۔ گہری معنویت کے علاوہ اس استعارے میں ایک صوری یا ظاہری حُسن بھی ہے۔ پَروں والے زہریلے سیاہ بھونڈ کی دُم پر پیلے رنگ کی دھاریاں سی ہوتی ہیں۔ یہ دھاریاں جج صاحبان کی سیاہ عبائوں پر سنہری ریشمی حاشیوں سے گہری مشابہت رکھتی ہیں۔۔‘‘
پیٹرول کی قیمت میں 12 روپے لیٹر تک کمی متوقع
عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ میری روانی میں خلل ڈالتے ہوئے میرا دوست غصّے میں بولا__ ’’بس بس بس۔ بند کرو یہ خوشامد۔ مت جھوٹ بولو کہ کالا بھونڈ سب سے یکساں سلوک کرتا ہے۔ ذرا بتائو، نوازشریف کو سسلین مافیا، گاڈ فادر جیسے لقب کس نے دئیے تھے؟ کس نے وزیراعظم کو پیغام دیا تھا کہ اڈیالہ جیل میں بڑی جگہ خالی ہے، اور پھر کس نے ریمانڈ پر زیر حراست عمران خان کا استقبال ’’گڈ ٹو سی یو‘‘ کہہ کر کیا تھا؟ یہ کیسے انصاف پسند بھونڈ ہیں جو کسی مُجرم کے سرپر تتلیوں کی طرح منڈلاتے اور کسی بے گناہ کے سینے میں اپنا گہرا زہر یلا ڈَنک اتارتے ہوئے اسے وزیراعظم ہائوس سے نکال دیتے ہیں۔‘‘
عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ میں نے اپنے دوست کو ٹھنڈا کرتے ہوئے کہا __ ’’یار یہ سب ماضی کی باتیں ہیں….‘‘ اس پر وہ اور زیادہ بپھر گیا __ ’’اچھا تو یہ بتائو جن جج صاحب نے تمہیں ’’کالے بھونڈ‘‘ کا استعارہ دیا ہے انہوں نے جج رانا شمیم کو کس طرح مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کردیا تھا؟ کس طرح اُس کا نام ای۔سی۔ایل میں ڈال دیا تھا۔ صرف اسلئے کہ اس نے شواہد کے ساتھ یہ الزام لگایا تھا کہ ثاقب نثار نے نواز اور مریم کے معاملے میں اسلام آباد کے ججوں پر دبائو ڈالا۔ آج وہی بات چھ جج صاحبان نے کہی تو جج صاحب کا موقف بدل گیا ہے۔‘‘
عرفان صدیقی کے بقول میں نے جواب مخں کچھ کہنا چاہا لیکن وہ بولا __ ’’سنو، جب چار سال پہلے ، ’’ریاست مدینہ‘‘ کے دعویدارعمران خان کے دور میں نوازشریف کی تقریر اور تصویر پر پابندی لگ گئی تو مسلم لیگ (ن) فریادی بن کر عدالت گئی۔ تب جسٹس اطہرمن اللہ نے درخواست ہی کو ناقابل سماعت قرار دیکر باہر پھینک دیا اور کہا ’’سیاسی معاملات عدالتوں میں نہ لائے جائیں۔ موصوف کا کہنا تھا کہ تقریر پر پابندی سے نواز شریف کا کون سا بنیادی حق متاثر ہوا ہے؟‘‘ لیکن آج عمران خان کے معاملے پر اُن کی رائے یہ ہے کہ کسی کی تقریر یا بیان پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی چاہے وہ جیل میں بند کوئی سزا یافتہ مجرم ہی کیوں نہ ہو؟ کچھ دِن پہلے بھی اطہر من اللہ نے اپنے چار ساتھیوں سے اختلاف کرتے ہوئے رائے دی کہ وڈیو لنک پر عمران خان کا خطاب براہ راست پچیس کروڑ عوام تک پہنچایاجائے….‘‘
عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ میرا دوست پتہ نہیں کیا کیا اول فول بکے جارہا تھا۔ میں نے تنگ آ کر فون بند کردیا۔ میں پوری طرح عالی مرتبت جسٹس اطہرمن اللہ کے ساتھ کھڑا ہوں۔ انہوں نے’’ کالے بھونڈ‘‘ کے معنی خیز استعارے سے واضح پیغام دیا ہے کہ عدلیہ انصاف کی کارفرمائی کیلئے اپنا ڈنک ’’کالے بھونڈ‘‘ کی طرح بلا خوف ورعایت اور بلارغبت وعناد پوری زہرناکی کے ساتھ استعمال کرے گی۔ تاہم سچ یہی ہے کہ پون صدی کے دوران میں ’’کالے بھونڈوں‘‘ کا کردار ایک جیسا نہیں رہا۔ آج تک انہوں نے آئین توڑنے والے کسی ڈکٹیٹر کو نہیں کاٹا بلکہ ان کے ہاتھوں پہ بوسے دئیے جبکہ سیاستدانوں کے سینے ان کے زہریلے ڈنکوں سے چھلنی ہوتے رہے۔ یعنی یہ جج حضرات کچھ لوگوں کے لیے تو سجیلی تتلیاں اور کچھ کیلئے زہریلے سیاہ بھونڈ بنے رہتے ہیں۔