آنے والا بجٹ پاکستانی عوام کے لیے ڈراؤنا خواب کیوں بن گیا
پاکستان میں اگلے مالی سال کے بجٹ کی تیاری آخری مراحل میں داخل ہو چکی ہے۔ لیکن پاکستانی عوام اس بجٹ سے کوئی خاطر خواہ توقعات نہیں رکھتے کیونکہ آئیندہ مالی سال کا بجٹ ایک ایسے موقع پر پیش کیا جا رہا ہے جب ملک کے طاقتور اداروں اور عدلیہ میں تناؤ کی سی کیفیت دیکھنے میں آ رہی ہے۔ ملک کے نئے انتخابات کے بعد بھی داخلی استحکام نظر نہیں آ رہا ہے۔ وفاقی حکومت اگلے مالی سال کے لیے بجٹ جون کے دوسرے ہفتے میں پیش کرنے جا رہی ہے تاہم عوام اس خوف کا شکار ہے کہ اس بجٹ کے بعد اس کو مہنگائی کی نئی لہر کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
معاشی ماہرین کے مطابق بجٹ کے نام پر عوام کو ریلیف دینے کے بلند بانگ دعوے ہمیشہ سے لوگ سنتے آئے ہیں ۔ حکومت مراعات یافتہ طبقوں کی مراعات کم کرنے کی بجائے قوم کو مشکل فیصلوں کے لیے تیار رہنے کا کہہ رہی ہے۔ ان کے بقول بجٹ اب ایک رسمی کارروائی ہے جس میں الفاظ کے گورکھ دھندوں اور میڈیا کمپین کے ذریعے خالی خزانے سے عوام کے مقدر بدل دینے کے دعوے سنائی دیں گے۔ اس ماحول میں عام آدمی حکومت سے کیا توقع رکھے۔ ” ابھی حکومت کہہ رہی ہے کہ مہنگائی کم ہو رہی ہے اگلے چند مہینوں میں روپے کی قیمت کم ہوگئی تو سارا کچھ برابر ہو جائے گا۔‘‘
تاہم تجزیہ کار سلمان عابد کے مطابق آئی ایم ایف کے اگلے پروگرام میں جانے کے لیے حکومت کو آئی ایم ایف کی جن کٹھن شرائط کا سامنا ہے اس کی موجودگی میں حکومت کے پاس زیادہ معاشی گنجائش بھی نہیں ہے۔ ‘‘
تجزیہ کار ڈاکٹر عاصم اللہ بخش کا کہنا ہے کہ حکومت کا اصل مسئلہ آمدن اور اخراجات میں در آنے والا بہت بڑا فرق ہے۔ ملکی معیشت جمود کا شکار ہے، حکومت نئے لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے میں کامیاب نہیں ہو رہی ہے۔ وسائل کی کمی اور آئی ایم ایف کے دباؤ کی وجہ سے حکومت لوگوں کو روایتی ”سبسڈی‘‘ نہیں دے سکتی۔ ملک پر قرضوں کا بوجھ بہت زیادہ ہے۔ پاور سیکٹر کا گردشی قرضہ بڑھ رہا ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد وفاق زبوں حالی کا شکار ہے اور این ایف سی پر نظر ثانی آسان نہیں ہے۔ ایسے میں حکومت کے پاس اتنے وسائل ہی نہیں کہ بڑے بڑے عوامی بہبود کے کام کر سکے۔
صحافی عمران ریاض کو حج پر جاتے ہوئے گرفتار کرلیا گیا
تاہم تجزیہ کار جاوید فاروقی کا کہنا ہے کہ اس سال ملک میں قدرے جمہوری حکومتیں قائم ہیں جو بجٹ پیش کریں گی۔ ارکان اسمبلی کی طرف سے حکومت پر ان کے انتخابی حلقوں میں ترقیاتی کاموں کے لیے بھی دباؤ ہوگا۔ اگر ترقیاتی سرگرمیاں شروع ہوتی ہیں تو اس کا اثر عام لوگوں تک بھی پہنچنے کا امکان ہے۔
ممتاز ماہر معیشت اور گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر سید اصغر زیدی کے مطابق یہ درست ہے کہ پاکستان کو مشکل اقتصادی صورتحال کا سامنا ہے لیکن ان سارے حالات کے باوجود کچھ شارٹ ٹرم اور لانگ ٹرم منصوبہ بندی کرکے اس بحران سے نکلا جا سکتا ہے۔ ”ہمارے پاس سب سے قیمتی اثاثہ نوجوان نسل ہے جن کو صرف تھوڑے سے عرصے میں فنی مہارتیں جیسا کہ آرٹیفیشیل انٹیلیجنس، آئی سی ٹی، سافٹ ویئر ڈیویلپمنٹ ، ڈیٹا سائنسز اور فنی تعلیم وغیرہ) سکھا کر ہم انہیں پاؤں پر کھڑا کر سکتے ہیں۔