فوج کا ڈسا کپتان فوج سے ہی مذاکرات پر کیوں اڑا ہوا ہے
عام انتخابات کے بعد حکومتوں کی تشکیل کے باوجود تاحال ملکی سیاست میں عدم استحکام کا تاثر برقرار ہے کیونکہ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان سیاسی ڈیڈ لاک کے باعث تلخیاں کم ہونے کے بجائے بڑھتی ہوئی نظر آ رہی ہیں۔
حکمران جماعت مسلم لیگ ن نے گذشتہ چند ہفتوں کے دوران پی ٹی آئی کو متعدد بار مذاکرات کی میز پر آنے کی دعوت دی مگر پی ٹی آئی نے ہر بار ان کی پیشکش کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا کہ وہ حکومت کی بجائے طاقت کے مرکز یعنی صرف اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کے خواہشمند ہیں۔ اس کے ردعمل میں اب حکمران جماعت کے لوگ بھی مذاکرات کے راستے کو بند ہوتا دیکھ رہے ہیں۔البتہ ملک کے دیگر آئینی اداروں نے بھی موجودہ ملکی سیاست میں بڑھتے درجہ حرارت اور سیاسی ڈیڈ لاک کو بھانپتے ہوئے پی ٹی آئی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کو ’معاملات مذاکرات کے ذریعے حل‘ کرنے کی صلاح دی ہے۔جمعرات کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں نیب ترامیم کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے اڈیالہ جیل میں قید سابق وزیر اعظم عمران خان کی ویڈیو لنک پر پیشی کے دوران ریمارکس دیے کہ ’پارلیمنٹ میں بیٹھ کر مسائل حل کرنے اور ملک کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔‘ججز کی جانب سے دوران سماعت مشورہ دیا گیا کہ ’سیاستدان اختلافات کا حل مذاکرات کے ذریعے تلاش کریں۔‘مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ وہ اب بھی مذاکرات صرف اسٹیبلشمنٹ سے کرنا چاہتے ہیں اور پارلیمان میں موجود سیاسی جماعتوں کو اہمیت دینے اور ان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنےکے لیے آمادہ نظر نہیں آتے۔اس کی واضح مثال گذشتہ روز اڈیالہ جیل میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کے دوران ان کا بیان ہے جس میں ان کا کہنا تھا کہ ’ہم ان سے بات کریں گے جن کے پاس طاقت ہے۔ ان کے پاس تو طاقت ہی نہیں۔‘
اس تمام سیاسی رسا کشی میں اب حکمران جماعت بھی پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کی اپنی پیشکش سے پیچھے ہٹتی دکھائی دے رہی ہے اور وزیرِ اعظم شہباز شریف کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنا اللہ نے سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف ’نئے مقدمات قائم‘ کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ رانا ثناء اللہ کے مطابق عمران خان کے خلاف ’نئے مقدمات قائم ہوں گے، ہو رہے ہیں۔‘
وزیر اعظم کا اسلام آباد میں بین الاقوامی معیار کا ہیلتھ ٹاور تعمیر کرنے کا اعلان
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر حکمراں جماعت مذاکرات کی پیشکش سے اب کیوں پیچھے ہٹ رہی ہے اور پی ٹی آئی بات چیت کے راستے کو اپنانے سے کیوں گریزاں ہے؟
پاکستانی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار نصرت جاوید سمجھتے ہیں کہ حکومت کی مذاکرات کی پیشکش واپس لینے کی وجہ پی ٹی آئی کا رویہ ہے۔نصرت جاوید کے مطابق رانا ثنا اللہ کا مذاکرات کے حوالے سے بیان کوئی حیران کُن بات نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’پی ٹی آئی رہنماؤں نے ہتک آمیز رویہ اختیار کیا ہوا ہے۔ کل عارف علوی نے کہا کہ وہ مالکوں سے بات کریں گے مالی سے نہیں۔‘ پی ٹی آئی سمجھتی ہے کہ حکومت بےاختیار ہے، کٹھ پُتلی ہے اور ’بات صرف پاکستانی فوج سے کریں گے۔‘ایک سوال پر نصرت جاوید کا کہنا تھا کہ عمران خان کے حق میں آنے والے فیصلے مذاکرات کے حوالے سے حکومتی حکمت عملی میں تبدیلی کی ایک وجہ ضرور ہوسکتے ہیں لیکن ’یہ کوئی فیصلہ کُن وجہ نہیں۔‘رانا ثنا اللہ کی جانب سے عمران خان کے خلاف مزید مقدمات کے اندراج سے متعلق بیان پر نصرت جاوید نے کہا کہ ’نئے مقدمات کا حشر بھی وہی ہوگا جو پُرانے مقدمات کا ہوا ہے۔‘
دیگر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مذاکرات کس سے کرنے ہیں اور کس سے نہیں اس کا فیصلہ عمران خان کی مرضی پر منحصر ہے۔ پی ٹی آئی مکمل طور پر خان صاحب کی ہاں یا نہ پر انحصار کرتی ہے۔ پی ٹی آئی کے کارکنان اپنی قیادت کی ہر بات مانتے ہیں اور بیانات میں تضادات کو خاطر میں نہیں لاتے۔ ان کی رائے میں پی ٹی آئی پر سیاسی جماعتوں سے مذاکرات نہ کرنے کا دباؤ ان کے کارکنان کی جانب سے بھی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی اس وقت میں اپنے کارکنوں اور بیانیے کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتی۔ ’الیکشن میں کارکنان سمجھتے تھے کہ عمران خان کے خلاف غلط کیسز بنائے گئے اور ان کے ساتھ اچھا نہیں ہوا، اس لیے یہاں کہا گیا کہ ہمیں ایک خاص ادارے کے خلاف ووٹ دینا ہے۔‘ ’اب جب قیادت مذاکرات کی بات کرتی ہے تو کارکنان کہتے ہیں کہ اب بات تو اسٹیبلشمنٹ سے ہی کرنی پڑے گی۔‘