عمران خان نے ملک ریاض کو 38 ارب کا فائدہ کیسے دیا؟

بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض حسین کے برطانیہ میں ضبط شدہ اثاثوں کی پاکستان منتقلی کے بعد عمران خاں حکومت نے کس طرح یہ رقم انہیں دوبارہ لوٹائی، اس معاملے کو قومی مفاد کے نام پر صیغہ راز میں رکھا جا رہا تھا، لیکن اب اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ ملک ریاض اور کپتان سرکار نے مل کر قومی خزانے کو 38 ارب کا ٹیکہ لگا دیا ہے۔
2019 میں جب برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے ملک ریاض کے 38 ارب روپے کے اثاثے ضبط کرکے یہ رقم حکومت پاکستان کو منتقل کی تو کپتان حکومت نے اس رقم کو قومی خزانے میں جمع کروانے کے بجائے، قومی مفاد کے تحت ایک خفیہ معاہدے کی بنیاد پر ملک ریاض کو بحریہ ٹائون کراچی کیس میں 460 ارب کے جرمانے کی قسط کے طور جمع کروانے کی غیر قانونی اجازت دے دی۔ یوں ملک ریاض کی منی لانڈرنگ کے ذریعے برطانیہ لیجائی گئی رقم واپس پاکستان آگئی جسے انہوں نے اہنے خلاف ایک دوسرے کیس میں جرمانے کے طور پر جمع کروادیا۔ لہٰذا لوٹی ہوئی دولت پاکستان واپس تو آئی لیکن نہ تو اس میں سے بحریہ ٹائون کے متاثرین کو کچھ ملا اور نہ ہی قومی خزانے کو اس کا کوئی فائدہ ہوا۔ ہمیشہ کی طرح فائدہ اٹھانے والا ملک ریاض ہی نکلا جو آج کل عمران خان کے قریبی ترین لوگوں میں شمار ہوتا ہے۔
اس معاملے کی تفصیلات کے مطابق 2019ء میں اسلام آباد میں کابینہ کے ایک اجلاس کے دوران وزیرِاعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کو ‘ایجنڈا سے ہٹ کر’ ایک معاملہ پیش کرنے کی اجازت دی گئی۔ بتایا جاتا ہے ان کے پاس ایک بند لفافہ تھا، انہوں نے بتایا کہ اس لفافے میں ایک غیر اعلانیہ معاہدہ موجود ہے جو کہ ان کروڑوں پاؤنڈز کے تصفیے کے بارے میں تھا جو برطانوی ادارے نیشنل کرائم ایجنسی نے پاکستانی پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کے ساتھ کیا تھا۔ انسانی حقوق کی وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری نے کابینہ اجلاس کے دوران شہزاد اکبر کو ٹوکتے ہوئے اعتراض کیا کہ جب ہمیں یہ معلوم ہی نہیں کہ اس لفافے میں بند معاہدے میں کیا لکھا ہے تو آخر ہم کس بات کی منظوری دے رہے ہیں؟ دراصل وفاقی کابینہ کو بتایا گیا تھا کہ اگر اس لفافے کو کھولا گیا تو اس کے قومی سلامتی پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں اور برطانوی حکومت بھی اس حوالے سے تحفظات رکھتی ہے۔ چنانچہ عمران خان کی ہدایت پر اس معاہدے کی بغیر مزید کوئی بحث کیے کابینہ سے منظوری لے لی گئی۔
لیکن افسوس کی بات یہ کہ کرپٹ افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے اور بیرونِ ملک پاکستانیوں کے غیر قانونی پیسے کو ملک واپس لانے کے دعوؤں کے باوجود تحریک انصاف حکومت ملک ریاض کے ساتھ کی گئی اثاثہ ضبطی سے متعلق اس ڈیل پر آج تک خاموش ہے؟ خیال رہے کہ یہ ثابت ہو جانے کے بعد کہ بحریہ ٹاؤن نے کراچی کے ضلع ملیر کے مضافات میں ہزاروں ایکڑ زمین پر غیر قانونی قبضہ کیا ہے، ملک ریاض نے مارچ 2019 میں سپریم کورٹ کو 460 ارب روپے بطور جرمانہ ادا۔کرنے کی پیشکش کی تھی، جسے قبول کرلیا گیا تھا۔ اس کے بدلے عدالتِ عظمیٰ نے ان کے خلاف کراچی کے بحریہ ٹاؤن پراجیکٹ سے متعلق تمام مقدمات ختم کرنے کا حکم دیا تھا۔ یاد رہے کہ ملک ریاض کا شمار پاکستان کے امیر ترین افراد میں کیا جاتا ہے اور وہ بحریہ گروپ آف کمپنیز کے بانی چئیرمین ہیں جسے تعمیرات کے شعبے میں سب سے بڑا نجی ادارہ تصور کیا جاتا ہے۔
لیکن برطانیہ کی کرائم ایجنسی کے ساتھ ملک ریاض کے 38 ارب روپوں کے تصفیے کا معاملہ ابھی تک پراسراریت میں گھرا ہوا ہے کیونکہ تاحال یہ واضح نہیں ہو پایا کہ انکا تصفیہ حکومت برطانیہ کے ساتھ طے ہوا یا حکومت پاکستان کے ساتھ ہوا تھا۔ بظاہر سپریم کورٹ کا کیس اور برطانوی کرائم ایجنسی کا کیس دونوں الگ الگ ہیں، جس کا مطلب یہ ہوا کہ ملک ریاض کی سیٹلمنٹ دونوں کیسوں میں علیحدہ طور۔پر ہونی چاہیئے تھی۔چونکہ برطانیہ سے واپس آنے والی رقم سپریم کورٹ میں بحریہ ٹاؤن کراچی کیس میں سیٹلمنٹ کے طور پر جمع کروا دی گئی ہے لہذا اس کا مطلب یہ ہوا کہ ملک ریاض کا پیسہ ملک ریاض کو ہی واپس کر دیا گیا، اس طرح ملک ریاض کو 38 ارب روپے کا فائدہ ہوا۔
قانونی ماہرین کے مطابق یہ عمل ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص جرم سے حاصل کی گئی رقم کے ساتھ پکڑا گیا ہو لیکن اس رقم کو متاثرہ شخص کو واپس کرنے کی بجائے اسے ایک دوسرے جرم کی تلافی کے طور پر استعمال کر لیا جائے۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ریکور کی گئی رقم کو دوبارہ ملک ریاض کی جیب میں ڈالنے کے بجائے سیدھا پاکستان کے قومی خزانے میں آنا چاہیے تھا۔ یوں برطانوی ایجنسی این سی اے کے ساتھ ہونے والا تصفیہ ایک مذاق ثابت ہوا ہے کیونکہ پاکستانی حکومت کی مہربانی سے ملک ریاض کو حیران کن طور پر سزا سے چُھوٹ مل گئی۔ اس معاملے میں برطانوی ادارے این سی اے کی طرح حکومت پاکستان اور ملک ریاض تینوں نے ہی قومی مفاد کے نام پر پاکستانی عوام اور عالمی برادری سے حقائق چھپائے لیکن واضح طور پر ملک ریاض کو فائدہ پہنچایا گیا۔ ملک ریاض کا آج بھی یہی دعویٰ ہے کہ انہوں نے برطانیہ میں اپنی قانونی اور ڈکلیئرڈ کردہ جائیداد فروخت کی تھی تاکہ سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں بحریہ ٹاؤن کراچی کیس سے متعلقہ طے شدہ رقم کی ادائیگی کی جاسکے۔
یاد رہے کہ ماضی میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے بھی برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کی جانب سے ملک ریاض کے اہلِ خانہ سے 19 کروڑ پاؤنڈ کی برآمدگی سے متعلق معاملات چھپانے اور سوالات اٹھنے کے بعد برطانوی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ بدعنوانی کے خلاف کارروائی میں شفافیت اور احتساب کے عمل کا احترام کرے اور چھپائے گئے حقائق سے فورا پردہ اٹھائے۔ خیال رہے کہ لندن میں ملک ریاض سے ایک تصفیے کے نتیجے میں ملنے والی 19 کروڑ پاؤنڈز کی خطیر رقم دسمبر 2019 میں پاکستان کو منتقل کی گئی تھی جس کی تصدیق بیرسٹر شہزاد اکبر نے خود کی تھی لیکن این سی اے کی طرح شہزاد اکبر نے بھی اس رقم کے استعمال کے حوالے سے کسی سوال کا جواب نہیں دیا۔ ملک ریاض نے این سی اے کے ساتھ جو تصفیہ کیا اس کے نتیجے میں مرکزی لندن کے مشہور ہائیڈ پارک کے بالکل سامنے ایک رہائشی عمارت ون ہائیڈ پارک پلیس شامل تھا جس کی مالیت تقریباً پانچ کروڑ پاؤنڈ ہے۔ برطانیہ میں جائیداد کی خرید و فروخت کا ریکارڈ رکھنے کے مجاز ادارے لینڈ رجسٹری کے مطابق یہ پراپرٹی آخری مرتبہ30 مارچ 2016 کو برطانیہ کے ورجن آئی لینڈ میں رجسٹرڈ ایک کمپنی نے چار کروڑ پچیس لاکھ پاؤنڈ میں خریدی تھی۔ ملک ریاض سے تصفیے کی جو تفصیلات این سی اے نے جاری کی تھیں ان کے تحت بارہ کروڑ پاؤنڈ کی رقم آٹھ بینک کھاتوں میں جمع تھی جن کو منجمد کرنے کے احکامات ایجنسی نے اگست 2019 میں ویسٹ منسٹر مجسٹریٹ کورٹ سے حاصل کیے تھے۔ اس سے قبل دو کروڑ پاؤنڈ کی رقم دیگر بینک کھاتوں میں جمع تھی جنھیں دسمبر 2018 میں منجمد کیا گیا تھا۔ این سی اے نے کہا تھا کہ اس نے ملک ریاض اور ان کے خاندان سے تصفیے کے نتیجے میں مجموعی طور پر 19 کروڑ پاؤنڈ یا 38 ارب روپے حاصل کیے ہیں۔
31 جنوری 2018 کو جرائم اور انسداد بدعنوانی کے برطانوی اداروں کو ان ایکسپلینڈ ویلتھ یعنی ایسی دولت جس کا ذریعہ واضح نہ ہو کے قانون کے تحت اختیارات ملے تھے۔ پانامہ لیکس کے بعد فروری سنہ 2018 میں برطانیہ کی پارلیمان نے ایک قانون کی منظوری دی تھی جس کے تحت نیشنل کرائم ایجنسی کو منی لانڈرنگ کے ذریعے بنائی گئی جائیدادوں کے خلاف تحقیقات کرنے کے لیے عدالت سے اختیار حاصل کرنے کی گنجائش پیدا ہوئی تھی۔ نیشنل کرائم ایجنسی کے مطابق برطانیہ میں کمپنیاں کھولنے کے سہل اور آسان طریقہ کار کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے غیر قانونی دولت کو ٹھکانے لگایا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ 3 دسمبر 2019 کو برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی یا این سی اے نے ملک ریاض کے خاندان کے ساتھ 19 کروڑ پاؤنڈ کی رقم یا اثاثوں کی فراہمی کے عوض تصفیہ کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔ این سی اے نے 19 کروڑ پاؤنڈ کے تصفیے کی پیشکش قبول کی جس میں برطانیہ کی جائیداد میں لندن کے ون ہائیڈ پارک پلیس نامی عمارت کا ایک اپارٹمنٹ ڈبلیو 2 2 ایل ایچ شامل ہے جس کی مالیت تقریباً 5 کروڑ پاؤنڈز ہیں جبکہ منجمد اکاؤنٹس میں موجود تمام فنڈز شامل ہیں۔ ایجنسی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ 19 کروڑ پاؤنڈ کی رقم یا اثاثوں کی فراہمی کے عوض تصفیہ پاکستانی شہری ملک ریاض حسین کے حوالے سے این سی اے کی تحقیقات کے نتیجے میں کیا جائے گا، جو پاکستان کے نجی شعبے کی اہم ترین کاروباری شخصیت ہیں۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ برطانیہ سے 38 ارب روپے واپس آنے کے باوجود بحریہ ٹاؤن کراچی کے تیز تر پھیلاؤ سے متاثر ہونے والی مقامی کسانوں پر کوئی فرق نہیں پڑا اور ان کے سر پر اپنی آبائی زمینوں سے نقل مکانی کا منڈلاتا خطرہ ہر دن کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں انہیں انہی کی زمینیں خالی کروانے کے لیے تنگ کیا جا رہا ہے۔