حافظ ڈاکٹرائن: جنرل عاصم کی سوچ کیا ہے اور وہ کیا کرنا چاہتے ہیں؟

معروف اینکر پرسن اور سیاسی تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے آرمی چیف جنرل حافظ عاصم منیر کا ڈاکٹرائن بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ فی الحال پاکستانی میڈیا ان کی شخصیت، ان کے خیالات اور ان کے مزاج کا پتہ لگانے میں ناکام رہا ہے۔

روزنامہ جنگ کے لیے خصوصی تجزیے میں سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ پاکستانی صحافت کیلئے کافی عرصہ سے ایک مسئلہ جو چیلنج کی صورت اختیار کیے ہوئے ہے وہ ہے فیلڈ مارشل حافظ عاصم منیر کی شخصیت، ان کے خیالات اور ان کے مزاج کا پتہ لگانا۔ سچ تو یہ ہے کہ فی الحال پاکستانی میڈیا یہ کھوج لگانے میں ناکام ہے۔ جنرل عاصم منیر نہ تو جنرل قمر باجوہ کی طرح راتوں کو صحافیوں سے لمبی لمبی ملاقاتیں کر کے اپنا فلسفہ سمجھاتے ہیں، نہ وہ جنرل اشفاق کیانی کی طرح دھویں کے مرغولے چھوڑتے ہوئے اپنے ارادوں کا اظہار کرتے ہیں اور نہ ہی وہ جنرل راحیل شریف کی طرح آئی ایس پی آر کے پلیٹ فارم سے حکومت مخالف سیاسی جنگ لڑتے ہیں۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ جنرل عاصم منیر صحافیوں سے ملنے سے گریزاں ہیں اور ان کی میڈیا سے ملاقاتیں صرف دعا سلام تک ہی محدود ہیں، شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ وہ ماضی کے آرمی چیفس کی جانب سے میڈیا کے سامنے اپنے ارادوں کے اظہار کو غلط سمجھتے ہوں۔ وہ بتاتے ییں کہ میں نے ایک پروفیشنل صحافی کی حیثیت سے کئی بار جنرل عاصم سے ملاقات اور گفتگو کے لیے وقت لینے کی درخواست کی ہے لیکن ہر مرتبہ شائستگی سے ٹال دیا گیا۔ بعض لوگوں کے خیال میں اتنے اہم غیر سیاسی عہدے پر فائز شخص کے اظہار خیال سے پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ خاموش رہنے سے افواہیں اور غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں، اور لمبی خاموشی، ملاقاتوں سے زیادہ خطرناک ثابت ہوتی ہے۔

تاہم سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ اس صحافیانہ استدلال کو کون سنتا ہے حالانکہ افواہیں اور غلط فہمیاں پھیل رہی ہیں۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ ہم جنرل حافظ عاصم منیر کے بارے میں کیسے جانیں۔ اس حوالے سے راقم نے وزیر اعظم سمیت جنرل صاحب سے ملنے والوں اور جاننے والوں سےگفتگو کی بنیاد پر ایک خاکہ مرتب کیا ہے جو قارئین کےتجسس کی پیاس بجھانےکیلئے پیش کیا جا رہا ہے۔ سینئیر صحافی کے بقول جنرل صاحب کے جاننے والے بتاتے ہیں کہ وہ دوستوں کے حلقوں میں ابریشم اور دشمنوں کیلئے فولاد کی طرح ہیں۔

وزیر اعظم شہباز شریف کے بقول وہ 1988ء سے اب تک آنے والے ہر آرمی چیف آف سٹاف سے ملتے رہے ہیں اور تقریباً ہر ایک کے فیصلوں کے مثبت اور منفی نتائج کو براہ راست محسوس کرتے رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ حافظ عاصم منیر ماضی کے تمام فوجی سربراہوں سے مختلف ہیں، ماضی کے فوجی سربراہ اگر دن میں وزیر اعظم سے ملتے تھے تو رات کے اندھیرے میں اسی کی اپوزیشن سے رابطہ کرلیتے تھے۔ بقول وزیر اعظم شہبازشریف سابق صدر عارف علوی نے آرمی چیف کےتقرر نامے کے بعد کوشش کی کہ وہ عمران خان سے جنرل عاصم منیر کی فون پر بات کرا دیں مگر جنرل عاصم نے سرکاری حکام کے علاوہ کسی سے بھی بات کرنے سے انکار کردیا۔

حافظ عاصم منیر ذاتی طور پر مذہبی ہیں، وہ اکثر گفتگو میں قرآن پاک کی آیات کا حوالہ دیتے ہیں اور ان ہی کی روشنی میں اپنا لائحہ عمل ترتیب دیتے ہیں، ان کی والدہ مرحومہ کی وفات ہوئی تو ان کی نماز جنازہ انہوں نے خود پڑھائی۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہر شخص کو دین کا فہم ہونا چاہیے اسی لئے کسی مولوی کو نماز جنازہ پڑھانے کیلئے نہیں بلایا۔ حافظ قرآن ہونے کے باوجود عاصم منیر مذہبی انتہاپسندی کے خلاف ہیں۔ جب ان سے انکے ایک افسر کی یہ شکایت کی گئی کہ وہ شام کے وقت دفتر میں نیکر پہن لیتا ہے (حالانکہ وہ جم کرنے کیلئے نیکر پہنتا تھا) تو جنرل عاصم منیر نے اس آفیسر کو بلا کر نہ صرف فٹ رہنے کا نہ صرف درس دیا بلکہ اس کی حوصلہ افزائی بھی کی۔

فیلڈ مارشل عاصم منیر تساہل دکھانے والے فوجی افسروں کو پسند نہیں کرتے۔ وہ ایسے تین سینئر لیفٹیننٹ جرنیلوں کو ان کے عہدوں سے برخاست کر چکے ہیں جن پر ڈسپلن کی خلاف ورزی اور کوڈ آف کنڈکٹ کی پابندی نہ کرنے کا الزام تھا۔ پاکستان کی تاریخ میں آج تک کسی سابق آئی ایس آئی چیف کا احتساب نہیں ہوا، لیکن جنرل فیض حمید اس وقت کورٹ مارشل کے مراحل سے گزر رہے ہیں۔

عمومی طور پر یہ غلط تاثر تھا کہ جنرل باجوہ نے جہادی گروپس کی سرگرمیوں پر جو پابندیاں عائد کی تھیں شاید ان میں کچھ نرمی آ جائے گی۔ جہادی تنظیموں کو اس حوالے سے کافی امیدیں بھی تھیں لیکن حافظ ڈاکٹرائن کسی پراکسی وار کا قائل نظر نہیں آتا۔ اس کی ایک بڑی وجہ تو ایف اے ٹی ایف اور دوسری بین الاقوامی نگرانیاں ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ یہ نظریہ بھی کار فرما ہے کہ پاکستان کی افغان پراکسی اور کشمیر پراکسیز بالآخر آزاد اور خود مختار ہو کر پاکستانی ریاست ہی کیلئے خطرہ بن جاتی ہیں، موجودہ ڈاکٹرائن کے مطابق ڈسپلنڈ فوج کو ہی ریاست کی واحد نمائندہ فورس ہونا چاہئے۔

سہیل وڑائچ کے مطابق سماجی طور پر جنرل عاصم منیر کے دوستوں کا دائرہ زیادہ وسیع نہیں۔ وہ محدود دوستوں سے ہی ملتے اور انہی کے ساتھ چلتے ہیں۔ ان کے دوست اپنے خاندان اور رسوم و رواج کے حوالے سے بھی ان کے مشوروں کو صائب سمجھتے ہیں۔ حتیٰ کہ کسی کی شادی پر سلامی میں کیا دینا ہے، ایسے مشورے بھی ان سے کیے جاتے ہیں۔ عاصم منیر عرصہ دراز سے اپنے دوستوں کے ٹیم لیڈر رہے ہیں اور انہیں لیڈر شپ کا خاصا تجربہ ہے۔ خوارج دہشت گردوں اور فتنۂ ہندوستان کے حوالے سے موجودہ ڈاکٹرائن میں کوئی نرمی یا گنجائش موجود نہیں۔ وفاقی حکومت کی پہلے رائے تھی کہ بلوچستان فرنٹ پر سیاسی ڈائیلاگ ہونا چاہیے، نواز شریف نے بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر مالک کو بلا کر مذاکرات کا عندیہ بھی دیا، لیکن جعفراباد ایکسپریس کے دہشت گرد حملے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ یہ سوچ بحث اور صلاح مشورے کے بعد سردخانے کی نذر ہو چکی اور اب آپریشن ہی واحد آپشن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب خوارج دہشت گرد سینکڑوں کی تعداد میں مارے جا رہے ہیں۔ طالبان اور فتنۃ الہندوستان کو کبھی اتنی سخت مدافعت اور ایکشن کا سامنا نہیں کرنا پڑا جتنا آج کل کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ ڈاکٹرائن پاکستان کے نظریے پر کامل یقین رکھتا ہے اور پاکستان کے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کا بھرپور مقابلہ کرنے کا عزم رکھتا ہے۔

پی ٹی آئی کا بجٹ میں ووٹ نہ دینے کے لیے پیپلز پارٹی سے رابطہ

حافظ ڈاکٹرائن کو شدت سے یہ احساس ہے کہ پاکستان کی معاشی بنیاد بہت کمزور ہے اور جب تک اسکی معیشت مضبوط نہیں ہوگی تب تک ریاست بھی طاقت نہیں پکڑ سکتی۔ اسی خیال کے پیش نظر ایس آئی ایف سی کی تشکیل ہوئی تاکہ فوج اور سول حکومت کے اشتراک سے بیرونی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی ہو سکے، حافظ ڈاکٹرائن کا بنیادی مقصد پاکستان کو دفاعی اور معاشی استحکام دینا ہے اور ظاہر ہے کہ اس سوچ کے محور و مرکز جنرل عاصم منیر خود ہیں، گویا اس ڈاکٹرائن کی کامیابی کا انحصار بھی ان کے معیشت پر خصوصی ارتکاز پر ہے۔ جنرل عاصم منیر کے خیال میں پاکستان کے معدنیات کے ذخائر اتنے وسیع ہیں کہ ان سے ملک کے تمام قرضے بھی اتر سکتے ہیں اور ملک معاشی طور پر اپنے پیروں پر کھڑا بھی ہوسکتا ہے۔دوسری طرف ان کے نقادوں کے خیال میں سیاسی استحکام لانے کیلئے اس ڈاکٹرائن کے پاس کوئی فارمولہ نہیں ہے حالانکہ پائیدار ترقی و استحکام کے لئے ایک ایسا فارمولہ بنانا ضروری ہوتا ہے۔

Back to top button