جنرل باجوہ کا ڈنڈا اب تک کیوں گھوم رہا ہے؟

معروف اینکر اور تجزیہ کار حامد میر نے کہا ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان مسلسل یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ پاکستان بدل چکا ہے لیکن ایسا تب تک نہیں ہوگا جب تک سابق آرمی چیف جنرل قمر باجوہ اور ان کے اثاثے پبلک کرنے کے الزام میں گرفتار ہونے والے صحافی شاہد اسلم پر قانون کا یکساں اطلاق شروع نہیں ہوتا۔ اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں حامد میر کہتے ہیں ہو سکتا ہے کہ عمران خان کے لئے پاکستان واقعی بدل گیا ہو کیونکہ وہ سابق آرمی چیف جنرل باجوہ پر بہت سارے الزامات لگا چکے ہیں اور جواب میں باجوہ صاحب بند کمروں میں تردید کے سوا کچھ نہیں کرسکے۔ خان صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ ہم صحافیوں کے لئے پاکستان ابھی نہیں بدلا۔ جب عمران وزیر اعظم تھے تو ان کا ماتحت ادارہ ایف آئی اے بغیر کسی کیس کے حکومت پر تنقید کرنے والے صحافیوں کو اغوا کر لیتا تھا۔ آج کل شہباز شریف وزیر اعظم ہیں اور ایف آئی اے صحافیوں کے خلاف وہی کچھ کر رہا ہے جو عمران خان کے دور حکومت میں ہوتا تھا۔
حامد میر بتاتے ہیں کہ ایف آئی اے نے گزشتہ ہفتے لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی شاہد اسلم کو گرفتار کیا اور اسلام آباد کی ایک عدالت سے ان کا دو روزہ جسمانی ریمانڈ بھی حاصل کرلیا۔ شاہد اسلم پر الزام ہے کہ انہوں نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو سے سابق آرمی چیف قمر باجوہ کے اثاثوں کے متعلق انفارمیشن حاصل کرکے ایک دوسرے صحافی احمد نورانی کو فراہم کی۔ فیکٹ فوکس پر شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق جنرل باجوہ کے خاندان نے اپنے 6 سالہ دور اقتدار میں 12 ارب روپے سے زائد کے اثاثے اور جائیدادیں بنائیں۔ بظاہر ایف آئی اے کے پاس شاہد اسلم کے خلاف جنرل باجوہ کے اثاثے لیک کرنے کے الزام بارے کوئی ثبوت نہیں لیکن ثبوت کی تلاش میں وہ شاہد سے ان کے موبائل کا پاس ورڈ مانگ رہے ہیں لیکن شاہد ایسا کرنے سے انکاری ہے۔ شاہد کی گرفتاری سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا جنرل باجوہ واقعی ریٹائر ہو چکے ہیں یا اب بھی شہباز شریف حکومت پر اپنا حکم چلا رہے ہیں؟ اگر شہباز شریف حکومت کے خیال میں شاہد نے کوئی بہت بڑا قانون توڑ دیا ہے تو کیا جنرل قمر باجوہ اپنا ڈنڈا گھماتے ہوئے قانون نہیں توڑتے رہے؟ باجوہ کی قانون شکنی کے بارے میں سب سے بڑی گواہی چوہدرری پرویز الٰہی دے چکے ہیں۔ چوہدری صاحب نے ببانگ دہل بتایا کہ جنرل باجوہ نے انہیں مشورہ دیا تھا کہ وہ پی ڈی ایم کی بجائے عمران خان کا ساتھ دیں۔ جنرل باجوہ کا یہ مشورہ آئین کی دفعہ 244 کی خلاف ورزی تھی جس کے تحت مسلح افواج کے افسران اور جوان یہ حلف اٹھاتے ہیں کہ وہ کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہوں گے۔
حامد میر کہتے ہیں کہ عمران خان کو جنرل باجوہ کے خلاف اسی دن کارروائی کر دینی چاہئے تھی جب انہوں نے جنوری 2021ء میں اسد عمر، پرویز خٹک، شاہ محمود قریشی اور شبلی فراز کو طلب کیا اور انہیں کہا کہ اڑتالیس گھنٹے کے اندر اندر وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کو تبدیل کر دیا جائے۔ اسد عمر نے فوری طور پر جنرل باجوہ کا یہ غیر آئینی پیغام خان صاحب کو پہنچا دیا لیکن انہوں نے آرمی چیف کی وارننگ کو نظر انداز کردیا اور بعد ازاں انہیں مدت ملازمت میں توسیع کی پیشکش کرکے راضی کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ شہباز شریف کے پاس بھی جنرل باجوہ کی سیاست میں مداخلت اور مارشل لا کی دھمکیوں کے کئی ثبوت اور گواہ موجود ہیں لیکن عمران خان کی طرح وہ بھی صرف صحافیوں کو جیلوں میں ڈال کر اپنی حکومت کا رعب جمانے کی کوشش میں ہیں۔ شہباز شریف کابینہ کے ایک اہم وزیر نے مجھے کہا کہ شاہد اسلم کا تعلق ایک ایسے ٹی وی چینل سے ہے جس نے آپ پر غداری اور توہین رسالت جیسے بے بنیاد الزامات لگائے ایسے ٹی وی چینل سے وابستہ صحافی کی خاطر آپ ہم سے لڑائی کیوں مول لیتے ہیں؟ میں نے وزیر صاحب کو بتایا کہ عمران خان کے دور میں جب بھی کسی صحافی پر ناجائز مقدمہ بنا یا اسے اغوا کیاگیا تو ہم نتائج کی پرواہ کئے بغیر حکومت پر بھی تنقید کرتے تھے اور حکومت سے زیادہ طاقتور افراد پر بھی تنقید کرتے تھے۔ اسی لئے جنرل باجوہ اور جنرل فیض نے مل کر مجھ پر نو ماہ کی پابندی لگوائی۔ اب اگر آپ کی حکومت بھی صحافیوں کے ساتھ وہی کچھ کر رہی ہے تو ہم کیسے خاموش رہیں؟
حامد میر کہتے ہیں کہ شاہد اسلم کو جس خبر کی پاداش میں گرفتار کیا گیا وہ ان کے ٹی وی چینل نے نشر نہیں کی بلکہ وہ خبر احمد نورانی کی ویب سائٹ فیکٹ فوکس نے جاری کی۔ ارشد شریف کی شہادت کے بعد شاہد اسلم کی گرفتاری پاکستان کے اہل صحافت کے لئے خطرے کی دوسری گھنٹی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ صحافیوں کو سیاسی جماعتوں کا ترجمان بننے کی بجائے صرف صحافت کے ساتھ وفا دار رہنا چاہئے۔ سیاستدان اور صحافی کی دوستی بڑی مشکل شے ہے۔ اس دوستی میں سیاستدان اپنی سیاست کو شاذو نادر ہی قربان کرتا ہے۔ سیاستدان ہمیشہ اپنے صحافی دوست سے قربانی مانگتا ہے اور کچھ صحافی اس دوستی کو نبھاتے نبھاتے اپنی صحافت قربان کر بیٹھتے ہیں۔ نوجوان صحافی ان سینئیرز۔کو اپنا رول ماڈل نہیں بناتے جو صحافت کو سیڑھی بنا کر سیاسی اعر حکومتی عہدے حاصل کرتے ہیں۔ نوجوانوں کا رول ماڈل وہ صحافی بنتے ہیں جو ہر حکومت کے دور میں عتاب کا شکار رہتے ہیں۔ ہمارے بزرگوں میں حسین نقی اور الطاف حسن قریشی کی صورت میں دو زندہ مثالیں موجود ہیں۔ یہ دونوں بزرگ مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں لیکن جمہوریت اور آزادی صحافت کے لئے ان دونوں نے سیاسی حکومتوں کے ساتھ ساتھ فوجی حکومتوں کے دور میں بھی مصائب جھیلے۔ الطاف حسن قریشی کو ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے بھی گرفتار کیا اور جنرل ضیاء الحق نے بھی انہیں گرفتار کئے رکھا۔ اکتوبر 1977ء میں الطاف حسن قریشی گرفتار ہو کر کوٹ لکھپت جیل لاہور پہنچے تب وہاں بھٹو بھی قید تھے اور اپنے مشقتی کے ذریعہ قریشی صاحب سے اردو ڈائجسٹ منگوا کر پڑھا کرتے تھے۔
حامد میر کہتے ہیں کہ الطاف حسن قریشی نے حال ہی میں ’’مشرقی پاکستان، ٹوٹا ہوا تارا‘‘ کے نام سے سقوطِ ڈھاکہ کے اسباب پر ایک کتاب مرتب کی ہے جو ان کے آنکھوں دیکھے واقعات و مشاہدات پر مبنی ہے۔ اس کتاب میں ان کی 1969ء کی ایک تحریر کے یہ الفاظ 2023ء میں بھی بڑے اہم ہیں۔ لکھتے ہیں ’’ ملک کا دستور چاک کردینا، ملک سے غداری کے مترادف ہے۔ جو شخص ناموس دستور پر ہاتھ ڈال سکتا ہے اس کے نزدیک ہرناموس بے وقعت اور بے وقار ہے‘‘۔ اس کتاب کا اختتام ان الفاظ پر ہوتا ہے۔ ’’ سیاسی قیادت ہو یا فوجی قیادت، اس کے ذاتی کردار اور مشاغل پر گہری نگار رکھنی چاہئے‘‘۔ پاکستان کے اہل صحافت کو ناموس دستور پر ہاتھ ڈالنے والے سیاسی و غیر سیاسی عناصر پر گہری نگاہ رکھنی چاہئے اور ان افراد یا اداروں کے خلاف متحد ہو کر مزاحمت کرنی چاہئے جو شاہد اسلم کو تو قانون کا مجرم سمجھتے ہیں لیکن جنرل باجوہ کے سامنے قانون کی گردن جھکا دیتے ہیں۔ پاکستان اس دن بدلے گا جب ملکی قانون شاہد اسلم اور باجوہ کے لئے برابر ہوگا۔
