بیرسٹر گوہر نے تحریک انصاف کی دوغلی پالیسی کیسے بے نقاب کی؟

چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے تحریک انصاف کی مشہور زمانہ دوغلی پالیسی کو بے نقاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے ملاقات عمران خان کی خواہش پر کی تھی لیکن پی ٹی آئی اور حکومت کے مذاکرات کی ناکامی کے بعد خان صاحب نے 9 مئی کے واقعات پر فوجی قیادت سے معافی مانگنے سے انکار کر دیا۔ یاد رہے کہ جب بیرسٹر گوہر کی آرمی چیف سے ملاقات ہوئی تھی تب تحریک انصاف اور حکومت کے مابین مذاکراتی عمل جاری تھا، تا ہم یہ عمل تب ناکامی کا شکار ہو گیا جب عمران خان نے حکومت کی بجائے فوجی اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کا مطالبہ کر دیا جبکہ اسٹیبلشمنٹ نے ان سے مذاکرات کرنے سے انکار کر دیا۔
ایک انٹرویو میں بیرسٹر گوہر خان نے بتایا کہ میری آرمی چیف سے ملاقات پر عمران خان بہت خوش تھے اور انہوں نے اطمینان کا اظہار بھی کیا تھا۔ انکا کہنا تھا کہ میں نے عمران خان کی خواہش پر جنرل عاصم منیر سے ملاقات کی تھی لیکن حکومت سے مذاکرات کی ناکامی کے بعد آرمی چیف سے ایک اور ملاقات کا بظاہر کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ یاد رہے کہ مذاکراتی عمل کے دوران تحریک انصاف کی ٹیم نے عمران خان اور تحریک انصاف کے دیگر مرکزی قائدین کی رہائی کا مطالبہ کر دیا تھا۔ تاہم حکومت کا موقف تھا کہ یہ تمام لوگ ان تمام لوگوں کے خلاف 9 مئی سمیت کئی کریمینل کیسز مختلف عدالتوں میں زیر سماعت ہیں لہذا ان کی رہائی عدالتی فیصلوں کی روشنی میں ہی ممکن ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ تحریک انصاف نے حکومت سے مذاکرات ختم کر دیے۔
چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے اپنے انٹرویو میں کہا ہے کہ کہا کہ ہمارے سپورٹرز ہم سے ناراض ہیں، ان کو یہ بات ہضم ہی نہیں ہو رہی کہ عمران خان کیوں جیل میں ہیں۔ہم انکو سمجھاتے ہیں کہ اپنے جذبات پر قابو رکھو لیکن وہ کب تک جذبات پر قابو رکھیں گے۔
بیرسٹر گوہر نےکہا کہ پی ٹی آئی ملک کی بڑی سیاسی جماعت ہے، سب لوگ عمران خان کی قیادت میں متحد ہیں،جب پارٹی پر مشکل وقت تھا تو قیادت منظر عام پر نہیں تھی، ایسے وقت میں عمران نے میرا نام بطور پارٹی چیئرمین لیا تو سب لوگوں نے اسے خوشی سے تسلیم کیا، پارٹی میں اختلافات اس لیے ہیں کہ ہم کنگز پارٹی نہیں ہیں، سب کو بولنے کی آزادی حاصل ہے۔ ہم اپنی ،پارٹی میں ڈسپلن قائم کرنےکی کوشش کر رہے ہیں، اور اسی وجہ سے پی ٹی آئی میں کوئی فارورڈ بلاک نہیں بنا۔
ایک سوال پر چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ عمران خان رہائی کے لیے کبھی فوجی اسٹیبلشمنٹ سے معافی نہیں مانگیں گے، سیاست میں معافی مانگنا کچھ نہیں ہوتا، عمران خان جمہوریت کےلیے سب کو معاف کرنے کے لیے تیار ہیں تو باقی لوگوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے مؤقف سے تھوڑا پیچھے ہٹیں، ایسا کرنا ملک اور جمہوریت کے لیے ضروری ہے، جب انا بیچ میں آ جاتی ہے تو ملک آگے نہیں بڑھ سکتا۔ بیرسٹر گوہر نے کہا کہ شیر افضل مروت کو پارٹی سے نکالنے کا فیصلہ حتمی ہے، یہ اب عمران خان کی صوابدید ہےکہ وہ کسی کو کب واپس پارٹی میں بلالیں، شیر افضل عمران خان سے ملاقات کر کے پارٹی میں واپس آ سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ علی امین گنڈاپور نے عمران خان کو خود کہا تھا کہ ان پر گورننس کا بوجھ زیادہ ہے، وہ صوبائی معاملات پر توجہ نہیں دے پارہے اسلیے پارٹی کی صوبائی صدارت کسی کارکن کو دے دی جائے، چنانچہ جنید اکبر کو صوبائی صدر بنانےکا فیصلہ کیا گیا، اب بھی عمران خان کو علی امین گنڈاپور پر مکمل اعتماد ہے۔
پی ٹی آئی چیئرمین نے کہا کہ ہماری پارٹی کی سیاسی، لیگل اور دیگر کمیٹیاں موجود ہیں، وہ فیصلہ کرتی ہیں کہ کس کو کس طرح احتجاج کرنا ہے، انکا کہنابتھا کہ حلقوں سے احتجاج کے لیے لوگ لانے کے لیے ارکان قومی اسمبلی کی نہیں بلکہ ارکان صوبائی اسمبلی اور ٹکٹ ہولڈرز کی ذمہ داری ہوتی ہے،یہ سب پالیسیاں عمران خان کی ہدایت پر بنائی جاتی ہیں،جہاں مجھے کہا جاتا ہے میں پارٹی کو لیڈ بھی کرتا ہوں لیکن ہم سب کا لیڈر صرف اور صرف ایک شخص ہے اور اس کا نام عمران خان ہے۔