ایرانی فوجی مزاحمت نے اسرائیلی اندازے کس طرح غلط ثابت کیے؟

ہمسایہ ممالک سے مسلسل محاذ آرائی کی وجہ سے دہائیوں سے مشرق وسطیٰ میں مغربی طاقتوں کا مضبوط مورچہ سمجھا جانے والا اسرائیل منہدم ہونے کو تیار ہے۔ ایران کی جانب سے تابڑ توڑ میزائل حملوں کے آگے اسرائیلی دفاعی نظام نے گھٹنے ٹیک دئیے ہیں حقیقت میں اسرائیل ایرانی میزائلوں سے نمٹنے کی اپنی صلاحیت کھو چکا ہے۔ ایسے میں امریکی صدر کی جانب سے ایران پر حملوں کے حوالے سے دی گئی مزید دو ہفتوں کی مہلت اسرائیلی ریاست کیلئے تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔
مبصرین کے مطابق ایران کے میزائل حملوں نے اسرائیل کی حالت غیر کر دی ہے۔ ایران نے اب تک اپنے میزائل ارسل کا صرف پانچ فیصد حصے سے بھی کم استعمال کیا ہے تاہم تل ابیب، یروشلم، حیفہ، ایلات ، شمعونا، کریات اور دیگر اسرائیلی شہر ملبے کے ڈھیر بن چکے ہیں مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے آئندہ دو ہفتوں تک ایران پر براہ راست حملے کا پلان موخر کرنے کے فیصلے نے اسرائیلی قیادت کے چھکے چھرا دئیے ہیں کیونکہ اسرائیل ایرانی میزائلوں سے نمٹنے کی اپنی صلاحیت کھو چکا ہے۔ ایسے میں مزید دو ہفتوں کا انتظار اسرائیلی ریاست کو تباہی کے دھانے پر پہنچا سکتا ہے۔ اس حوالے سے امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کے مطابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنے ہی ملک میں جاری خانہ جنگی کی صورت حال کے پیش نظر ایران کے خلاف جنگ میں کودنے کا فیصلہ ترک کر دیا ہے۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنے مشیروں کے ذریعے صہیونی وزیر اعظم نیتن یاہو کو پیغام پہنچایا ہے کہ امریکہ اسرائیل کو بی ٹو بمبار کے علاوہ تمام فوجی امداد جاری رکھے گا۔ لیکن اسرائیل خود اپنے دم پر ایران سے مقابلہ کرے۔ ادھر روس نے امریکا کو ایران پر مکنہ حملے سے خبر دار کر دیا ہے۔ کریملن کا خیال ہے کہ امریکہ کی جانب سے ایران میں جوہری ہتھیاروں کا ممکنہ استعمال ایک تباہ کن پیشرفت ہوگا۔ اسی طرح برطانیہ، فرانس، جرمنی، اٹلی اور آسٹریلیا نے بھی ایران کے جوہری پروگرامز پر حملوں میں اسرائیل کا ساتھ دینے سے صاف انکار کر دیا ہے اور قرار دیا ہے کہ اسرائیل نے ایران کے پاس جوہری ہتھیار رکھنے کے حوالے سے اب تک کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیا ہے۔
تاہم دوسری طرف تہران نے اسرائیل کے خلاف اپنی کارروائیاں جاری رکھنے اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ نیتن یاہو کے خاتمے اور غزہ میں مکمل جنگ بندی تک ایران اپنے حملوں نہیں روکے گا۔ ایرانی وزارت دفاع کے بقول ”ہم نے اپنی افواج کو کئی برسوں تک لڑنے کیلئے تیار کر رکھا ہے۔ ملک کی فوجی صنعتوں پر اسرائیلی حملوں کے باوجود تمام فوجی تنصیبات بھر پور طریقے سے کام کر رہی ہیں“۔
ایران اسرائیل کشیدگی نے پورے مشرق وسطیٰ کو لپیٹ میں لے رکھا ہے تجزیہ کاروں کے مطابق اسرائیل پچھلے تقریباً 2 برس سے اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ مسلسل حالت جنگ میں ہے۔ اسرائیلی جارحیت نے رفتہ رفتہ پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ تاہم امریکا کی پشت پناہی سے جاری ایران اسرائیل تصادم اب کہیں زیادہ خطرناک رخ اختیار کر چکا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق مشرق وسطیٰ میں مغرب کی طاقت کا نمائندہ سمجھا جانے والا اسرائیل خود سیاسی تنازعات کا شکار ہو چکا ہے۔
مبصرین کا ماننا ہے کہ اسرائیل کی کامیابی 2 ستونوں پر کھڑی تھی، ایک امریکا کی غیر متزلزل حمایت، اور دوسری خود اسرائیل کی اپنی اندرونی صلاحیت، فوجی طاقت، ٹیکنالوجی، اور ایک منفرد معاشرتی ماڈل۔تاہم ایران سے جنگ کے بعد اسرائیل کا دوسرا ستون اب کمزور ہو چکا ہے۔ اس کی سب سے واضح علامت ملک چھوڑنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہے۔ مسلسل خانہ جنگی کی وجہ سے 2025 میں تقریباً 82,700 افراد اسرائیل چھوڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں، جو پچھلے سال کے مقابلے میں 50 فیصد زیادہ ہے۔ اور یہ وہ افراد نہیں جو کم تعلیم یافتہ یا غیر متحرک ہوں، بلکہ نوجوان اور تعلیم یافتہ لوگ ہیں، وہی لوگ جو کسی جدید ریاست کی بنیاد ہوتے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اسرائیلی وزیر اعظم کی جاحیت پسندی نے اسرائیل کو ایسی حکمرانی کی طرف دھکیل دیا جس میں ہنگامی حالات اور مسلسل جنگی تیاری معمول بن چکی ہے۔اسرائیلی قیادت نے جنگ کو صرف ایک حکمت عملی نہیں بلکہ قومی یکجہتی اور سیاسی بقا کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ اب امن ان کا مقصد نہیں، بلکہ جنگ ان کا راستہ ہے۔ یہ وہی رجحان ہے جو روس اور چین کے خلاف مغربی پراکسی جنگوں میں بھی نظر آتا ہے۔
تجزیہ کاروں کے بقول مسلسل جنگی حالت کی وجہ سے اسرائیل معاشی طور پر کھوکھلا ہو چکا ہے۔اسرائیل اب اپنے وسائل کا بڑا حصہ جنگی حالات کو برقرار رکھنے میں جھونک رہا ہے۔ جس کی وجہ سے اسرائیل کی معاشرتی یکجہتی کمزور ہو رہی ہے، اسرائیل کا ترقی و ٹیکنالوجی کا ماڈل جو ایک وقت میں مثالی تھا، وہ اب ماند پڑ چکا ہے۔ مبصرین کے مطابق یہاں اصل سوال یہ ہے کیا اسرائیل جو ہمیشہ جنگ میں رہا، واقعی ایک ترقی یافتہ ریاست ہے؟ یا وہ صرف امریکی خارجہ پالیسی کا ایک حصہ، ایک اڈا رہا ہے جو سیاسی، فوجی اور مالی امداد سے قائم رہا؟ تجزیہ کاروں کے بقول اگر اسرائیل نے اب بھی ہوش کے ناخن نہ لئے اور مستقل جنگ اور دائیں بازو کی قوم پرستی کی راہ اپنائی رکھی، تو وہ مغرب کے لیے ایک پُل بننے کی حیثیت کھو سکتا ہے اور ایک تنہا، عسکری قلعے کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ کمزور، الگ تھلگ، اور دنیا سے کٹا ہوا۔