رضی دادا کی وجہ سے نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی جنگ کیوں چھڑی؟

پاکستان میں اکثر صحافیوں کی ویڈیوز یا بیانات محض معلومات کا ذریعہ بننے کی بجائے سیاسی محاذ آرائی کا حصہ بن جاتے ہیں۔ گزشتہ کچھ دنوں سے سینئر صحافی رضوان رضی کی سندھ کے عوام کے خلاف تضحیک آمیز ریمارکس پر مبنی متنازعہ ویڈیو نے سیاسی منظرنامے میں ہلچل مچا رکھی ہے۔ پیپلزپارٹی قیادت نے رضوان رضی کے ریمارکس کی نہ صرف مذمت کی بلکہ انہیں قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ بھی کیا تاہم یہ صورت حال اس وقت مزید پیچیدہ ہو گئی جب پنجاب حکومت، خاص طور پر وزیر اعلیٰ مریم نواز کے قریبی حلقوں سے رضوان رضی کی حمایت میں بیانات سامنے آنا شروع ہو گئے یہاں تک کے نون لیگ نے رضوان رضی سے اظہار یکجہتی کیلئے اپنے آفیشل سوشل میڈیا پر بھی بیان جاری کر دیا۔ جس پر وزیر اطلاعات سندھ شرجیل میمن نے منہ توڑ جواب دیا۔ یوں معاملہ محض ایک ویڈیو سے نکل کر ایک بھرپور سیاسی تنازع میں تبدیل ہو گیا۔ جس کے بعد پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے درمیان سخت سیاسی کشیدگی دیکھنے میں آ رہی اور دونوں جماعتیں وائرل ویڈیو کے حوالے سے آمنے سامنے آ چکی ہیں۔
خیال رہے کہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے مابین حالیہ تنازع سینیئر صحافی اور یوٹیوبر رضوان الرحمان رضی المعروف رضی دادا کی ایک ویڈیو سے شروع ہوا تھا، چند روز قبل اپنے ایک ویلاگ میں انھوں نے سندھ میں بسنے والوں کے خلاف مبینہ طور پر توہین آمیز اور نسل پرستانہ تبصرے کیے تھے۔ یہ ویڈیو دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی اور سندھ میں شدید ردعمل پیدا ہوا۔ پیپلز پارٹی کی قیادت اور کارکنوں نے اسے سندھ کے خلاف نفرت پر مبنی پروپیگنڈا قرار دیا۔ تاہم بعد ازاں انہوں نے اپنے ریمارکس پر معافی بھی مانگ لی تھی۔ تاہم رضوان رضی کے معافی مانگنے کے باوجود اب یہ معاملہ پنجاب اور سندھ کی صوبائی حکومتوں کے درمیان وجہ تنازع بن چکا ہے۔ ایک طرف مسلم لیگ ن کی قیادت رضی دادا کی معافی کو کافی سمجھتی ہے، تو دوسری طرف پیپلز پارٹی اسے سندھ کے خلاف نفرت انگیزی قرار دے رہی ہے۔ اس واقع نے سوشل میڈیا پر کئی دنوں سے طوفان برپا کر رکھا ہے۔
کیا سروائیکل کینسر کی ویکسین بچیوں کو بانجھ کر دے گی؟
ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد سینیٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی نے رضی دادا کو وضاحت کے لیے طلب کیا۔ کمیٹی میں انہوں نے معذرت کی اور کہا کہ ان کا مقصد کسی کو تکلیف پہنچانا نہیں تھا۔ تاہم کمیٹی نے ان کی معافی کو ناکافی قرار دیتے ہوئے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کو ان کا یوٹیوب چینل ’نفرت انگیز تقریر‘ کے باعث بند کرنے کے احکامات دے دئیے۔
اس کے بعد سوشل میڈیا پر رضی دادا کے حق میں ٹرینڈ چلنے لگا۔ ان کے حامیوں نے ایکس پر اپنی پوسٹس میں لکھا کہ ’آپ دادا سے اختلاف کر سکتے ہیں لیکن جس طرح انہوں نے مشکل وقت میں حق کا علم بلند رکھا وہ یاد رکھا جائے گا۔‘ اس مہم کو مسلم لیگ ن کی سوشل میڈیا ٹیم نے بھی آگے بڑھایا، جس سے معاملہ پنجاب اور سندھ کی سیاسی کشمکش میں ڈھل گیا۔ جس کے بعد وزیراعلٰی پنجاب مریم نواز کے نون لیگ کے آفیشل پیج پر جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ نون لیگ صوبائی تعصب پر یقین نہیں رکھتی، رضی دادا نے ’دل سے معافی مانگ کر ایک بڑے ظرف کا مظاہرہ کیا اس لئے اب یہ معاملہ ختم کر دینا چاہیے۔ جس پر سندھ کے وزیر اطلاعات شرجیل میمن نے رضی دادا کو ’بیمار ذہن‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’پنجاب حکومت کی جانب سے ان کی حمایت سندھ کے عوام کو منفی پیغام دے رہی ہے۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ ’نون لیگ کی جانب سے رضوان رضی کی حمایت میں ٹرینڈ حقیقت میں سیلاب میں اپنی ناقص کارکردگی سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔ جبکہ پیپلز پارٹی کے دیگر رہنماؤں نے بھی اس پر شدید ردعمل دیا اور کہا کہ یہ صحافت کی توہین اور اتحادی جماعتوں کے اتحاد کے لیے خطرہ ہے۔ ’پنجاب سیلاب سے نبرد آزما ہے اور مسلم لیگ ن سندھ کا مذاق اڑانے والوں کا دفاع کر رہی ہے۔‘ یوں یہ تنازع ایک ویڈیو سے نکل کر سیلابی امداد، وفاقی فنڈز اور صوبائی حقوق کی بحث تک پھیل گیا ہے۔
مبصرین کے مطابق مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی روایتی سیاسی مخالفت بہت پرانی ہے، 1990 کی دہائی میں مسلم لیگ ن کی پنجاب میں مضبوط گرفت اور پیپلز پارٹی کی سندھ میں بنیاد نے صوبائی تفریق کو مزید اجاگر کیا۔تاہم بعد کے برسوں میں یہ اختلافات زیادہ تر انتخابی مقابلوں تک محدود ہو گئے، لیکن پانی کی تقسیم، ڈیموں کی تعمیر اور وسائل کی تقسیم پر دونوں جماعتیں ہمیشہ متصادم رہیں۔‘ تاہم رضی دادا کا معاملہ پہلا موقع ہے جب یہ تنازع واضح طور پر صوبائی شناخت اور قومیت کے حساس پہلو سے جڑ گیا ہے۔ جو کہ وئی نیک شگون نہیں ہے۔
مبصرین کے مطابق سیاسی منظرنامے پر نظر ڈالیں تو یہ واضح ہوتا ہے کہ دونوں جماعتیں اس تنازع کو اپنے اپنے مفادات کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔ نون لیگ اس تنازعے کے ذریعے پنجاب میں اپنی حمایت کو مستحکم کرنے اور سیاسی مخالفین کو “اظہار کی آزادی کے دشمن” کے طور پر پیش کررہی ہے جبکہ دوسری جانب، پیپلز پارٹی اس معاملے کو سندھ کے عوام کے جذبات سے جوڑ کر خود کو “سندھی شناخت کا محافظ” ثابت کرنے کی خواہشمند نظر آتی ہے۔ نون لیگ کی طرف سے رضی کی حمایت کو بعض مبصرین نے اظہار رائے کی آزادی کے طور پر دیکھا، جبکہ مخالفین نے اسے “سیاسی مصلحت پسندی” قرار دے رہے ہیں۔ ناقدین کے مطابق رضوان رضی کی ویڈیو محض ایک صحافی کا ذاتی بیان نہیں بلکہ ایک ایسا واقعہ ہے جس نے پاکستان کے سیاسی، سماجی اور وفاقی ڈھانچے کی کمزوریوں کو عیاں کر دیا ہے۔ نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان اس تنازع نے واضح کر دیا ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے مفادات کی خاطر قومی وحدت کو داؤ پر لگا سکتی ہیں۔ پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان حالیہ کشیدگی بظاہر صوبائیت اور علاقائی تعصب کو ہوا دے رہی ہے۔
