پاکستانی فوج نے گرم ہونے والے وزیراعظم مودی کو ٹھنڈا کیسے کیا؟

بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی جنگ میں شکست کے بعد پاکستان پر تنقید کر کے اپنی خفت مٹانے اور شرمندگی و خجالت کا بوجھ گھٹانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں، تاہم انہیں اس حوالے سے کامیابی ملتی نظر نہیں آ رہی اور ان کی خجالت میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔
روزنامہ جنگ کے لیے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں بلال غوری ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپ نے ’’کھسیانی بلی کھمبا نوچے‘‘ والا محاورہ تو سنا ہوگا۔ کچھ ایسا ہی رویہ اج کل انڈیا کا بھی ہے۔ بھارت نے آپریشن سندور کی ناکامی کے بعد پاکستان کا ساتھ دینے پر پہلے ترکی اور آذر بائیجان کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا اور اب راستے میں آنیوالے ہر کھمبے کو نوچ کھانے کی کوشش کر رہی ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس طرح کے رویئے محض غیر ریاستی عناصر تک محدود نہیں بلکہ حکومتی سطح پر اس طرح کے رجحانات کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔ شکست خوردہ بھارت کے پردھان منتری مودی لایعنی و مبہم قسم کے بیانات اُگل رہے ہیں۔ یوں تو مودی جی مسلسل کئی ہفتوں سے تند وتیز تقریروں میں پاکستان پر تنقید کرکے خفت مٹانے اور شرمندگی و خجالت کا بوجھ گھٹانے کی کوشش کر رہے ہیں مگر چند روز قبل راجستھان کے علاقے بکا نیر میں جلسے سے خطاب کے دوران تو انہوں نے ایسی بات کہہ دی جس پر بھارت میں بھی تمسخر اُڑایا جارہا ہے اور کہا جارہا ہے کہ مودی جی پگلا گئے ہیں۔
دراصل مودی نے جوش جذبات میں کہہ دیا کہ میری رگوں میں لہو نہیں بلکہ گرم سندور دوڑتا ہے۔
سندرو مختلف کیمیائی اجزا سے بنایا جاتا ہے جس میں لیڈ اور مرکیورک سلفائیڈ سمیت کئی دھاتیں شامل ہوتی ہیں۔ اسے محض خواتین کی مانگ بھرنے کیلئے ہی استعمال کیا جاسکتا ہے ورنہ یہ بہت زہریلا اور انسانی صحت کیلئے مضر ہوتا ہے۔ اگر اسے گرم کرلیا جائے تو پگھلا ہوا سیسہ بن جاتا ہے۔ انسان تصور بھی نہیں کر سکتا کہ یہ گرم سیسہ اسکی نسوں میں داخل کردیا جائے ۔پاکستان نے آپریشن سندور کے جواب میں جو کارروائی کی تھی، اسے بنیان مرصوص یعنی سیسہ پلائی دیوار کا نام دیا گیا۔ شاید اس آپریشن کے تناظر میں بھارتی وزیراعظم اپنی رگوں میں سیسہ اُتارنے کے خواہاں ہیں، یا پھر شاید مودی جی کی ذاتی محرومیاں ان کی ذہنی صحت پر انداز ہو رہی ہیں۔ انہیں زندگی بھر کسی دوشیزہ کی مانگ میں سندور بھرنے کا موقع نہیں ملا اسلئے وہ سندور کے اپنے رگ و پے میں سرایت کرنے کی احمقانہ بات کر رہے ہیں، لیکن یہ پاگل پن محض مودی جی تک محدود نہیں بلکہ انکے پیروکار بھی یونہی باؤلے ہوئے پھرتے ہیں۔
بلال غوری کہتے ہیں کہ آپ کو یاد ہوگا چند روز قبل بھارتی شہر حیدر آباد میں ایک بیکری پر محض اسلئے دھاوا بول دیا گیا تھا کہ اس کا نام کراچی بیکری ہے۔ اسکے برعکس پاکستان کے شہر حیدر آباد میں بمبئی بیکری برسہا برس سے کام رہی ہے۔ کراچی اور دیگر شہروں میں بمبئی بریانی کے نام سے بہت سے کاروبار چل رہے ہیں مگر کبھی کسی نے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ ان دکانوں کا نام تبدیل کیا جائے۔
لیکن بھارت میں یہ مہم زور و شور سے جاری ہے اور اب تو مٹھائیوں میں نفرت گھول دی گئی ہے۔ راجوں مہاراجوں کے دور سے بنائی جانے والی مٹھائیوں جیسا کہ میسور پاک ،آم پاک ،گوند پاک اور موتی پاک کے نام بھی تبدیل کرائے جارہے ہیں کیونکہ انتہا پسندوں کو ان مٹھائیوں کے ناموں میں شامل پاک سے پاکستان کا خیال آتا ہے۔ یہ خیال آتے ہی انہیں رفال طیارے گرنے کی سوچ آتی ہے اور مٹھائیاں کڑوی محسوس ہونے لگتی ہیں۔
جب بھارت میں مٹھائیوں کے نام تبدیل کرنے کی مہم شروع ہوئی تو چند باشعور افراد نے تاریخی تناظر میں یہ سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ مٹھائیوں میں شامل لفظ پاک کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں اور یہ مٹھائیاں تو تقسیم ہندوستا ن سے بہت پہلے بنائی اور کھائی جارہی ہیں مگر دیوانگی کی حدوں کو چھو رہے یہ انتہا پسند کچھ سننے اور سمجھنے کو تیار نہیں۔
بھارت کے انگریزی اخبار ’دی ہندو‘‘ کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں تو اس بات پر بھی غور کیا جارہا ہے کہ پانی میں چھلانگ لگاتے وقت ’’چھپاک‘‘ کی جو آواز آتی ہے اسے تبدیل کردیا جائے کیونکہ اس میں بھی ’’پاکـ‘‘ کا لفظ آتا ہے۔ اس سے پہلے بھارت میں مغلیہ دور کے نام تبدیل کرنے کی مہم چلائی گئی تھی۔
دارالحکومت دہلی میں راشٹر پتی بھون یعنی ایوان صدر کے تاریخی مغل گارڈن کا نام تبدیل کر کے ’’امرت اددیان‘‘ رکھ دیا گیا۔ یہ مطالبہ بھی کیا جاتا رہا ہے کہ تاریخ اور نصاب کی کتابو ں سے ظہیر الدین بابر اور دیگر مغل حکمرانوں کا ذکر نکالا جائے۔
شاید یہ مطالبہ اب مزید زور پکڑ جائے کیونکہ آپریشن بنیان مرصوص کے بعد دنیا بھر میں دو ناموں کی گونج سنائی دے رہی ہے پاک فضائیہ کے سربراہ ایئر چیف مارشل ظہیر احمد بابر اور ترجمان ایئر وائس مارشل اورنگ زیب۔ اس طرح کے بیہودہ اقدامات سے پاکستان کو تو کوئی فرق نہیں پڑنے والا مگر نفرت کا بیوپار کرنے والے بھارتی انتہا پسند اس طرح کی حرکتوں سے اپنے دیش کی سیوا نہیں کر رہے۔
نفرت اس مہلک تیزاب کی طرح ہے جسے جس برتن میں رکھا جاتا ہے وہی گل سڑ جاتا ہے۔ لہازا مودی اینڈ کمپنی پاکستان کے خلاف جو نفرت پال رہی ہے وہ بھی سب سے زیادہ نقصان انہی کو پہنچائے گی۔