آزاد کشمیر کے عوامی احتجاج نے پاکستان کی بنیادیں کیسے ہلائیں؟

آزاد کشمیر میں عوامی ایکشن کمیٹی کا احتجاج ختم تو ہو گیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر عوامی احتجاج نے نظریہ پاکستان کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں اور پاکستان کے پلے کچھ بھی نہیں چھوڑا۔
عمران خان کے لیے ہمدردیاں رکھنے والے معروف لکھاری اور تجزیہ کار کیپٹن ریٹائرڈ ایاز امیر اپنے تجزیے میں کہتے ہیں کہ نظریہ پاکستان کے دو بنیادی ستون ہیں‘ ایک اسلام اور دوسرا کشمیر۔ اسلام کے نعرے لگتے رہیں گے لیکن جب آزاد کشمیر کے باسی بھی مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کی طرح آزادی کی جدوجہد کرنے لگیں تو نظریہ پاکستان کی بنیادیں ہلنے لگتی ہیں۔ ریاستی سوچ کی بنیاد ہندوستان دشمنی ہے اور ہندوستان دشمنی کا جواز تنازع کشمیر ہے۔ لیکن جب آزاد کشمیر کے باسی سراپأ احتجاج ہو جائیں تو نظریات کے تمام پہلوؤں پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔
کیپٹن ریٹائرڈ ایاز امیر کہتے ہیں کہ پاکستان کی دفاعی سوچ کا بنیادی نکتہ تنازع کشمیر ہماری خارجہ پالیسی کا سب سے اہم جزو ہے۔ ہماری عسکری طاقت کا جواز یہی تنازع ہے۔ ہماری ایٹمی قوت کا جواز بھی ہندوستانی خطرے پر مبنی ہے اور اس کیفیت کا گہرا تعلق کشمیر سے یے۔ لیکن جب آزاد کشمیر ہی نکتۂ احتجاج بن جائے تو یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ پاکستان کیلئے یہ کتنا بڑا داخلی اور بیرونی مسئلہ بن جاتا ہے۔ آزاد کشمیر میں ہونے والا احتجاج کوئی عام احتجاج نہیں بلکہ اتنا جامع اور ہمہ گیر تھا کہ اس کی مثالیں کم ہی ملتی ہیں۔ ریاست کو بھی اس حساسیت کا احساس ہے اور یہی وجہ ہے کہ جو اقدامات بلوچستان یا دیگر علاقوں میں کیے جا سکتے ہیں آزاد کشمیر میں ان کے بارے میں دس بار سوچنا پڑتا ہے۔
کیپٹن ریٹائرڈ ایاز امیر کے مطابق کشمیر کی نئی نسل بھی اس راز کو بھانپ گئی ہے کہ کشمیر کی حساسیت کی وجہ سے روایتی ریاستی ہتھکنڈے آزاد کشمیر میں استعمال کرنا مشکل ہو جاتے ہیں۔ اسی لیے آزاد کشمیر میں ہونے والے احتجاج میں پولیس اہلکاروں کو کافی مار کھانا پڑی۔ ایک زمانہ وہ تھا کہ کشمیری اور احتجاج دو متضاد چیزیں تھیں لیکن آج نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ فوج بھی اس خاص قسم کے احتجاج کے سامنے خود کو بے بس محسوس کرتی ہے۔
ایاز امیر کہتے ہیں کہ اسلام آباد پولیس کے جو دستے آزاد کشمیر بھیجے گئے تھے انہیں کافی زیادہ ناروا سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔ دیکھا جائے تو آزاد کشمیر ایکشن کمیٹی کے مطالبات خاصی عجیب نوعیت کے تھے۔ ایک بڑا مطالبہ تو یہ تھا کہ افسر شاہی سے نمائشی اور رعب جمانے والی مراعات واپس لی جائیں۔ افسر شاہی کا سارا نظام ایسی مراعات پر چلتا ہے اور اس حوالے سے جو ہوائیں آزاد کشمیر میں چل رہی ہیں ملک کے دیگر علاقوں میں چلنے لگیں تو یہاں کہرام مچ جائے اور نوکر شاہی کا پورا نظام مفلوج ہوکر رہ جائے۔ آزاد کشمیر میں نوعیت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ وہاں کی نوکر شاہی سرکاری گاڑیوں میں بیٹھنے سے پرہیز کر رہی ہے۔
وزیراعظم وضاحت کریں، بلاول نے کیا سازش کی؟ سعید غنی
کیپٹن ریٹائرڈ ایاز امیر کہتے ہیں کہ پورے 78سال ریاستِ پاکستان کشمیریوں کی آزادی یا خود مختاری کی بات کرتی رہی اور پھر آزاد کشمیر کے باسی ہی پاکستانیوں کو آزادی کا مفہوم سمجھانے نکل پڑے۔ یہ احتجاج کی حساسیت تھی جس نے وزیر اعظم شہباز شریف کو مجبور کیا کہ وزرا کا ایک بھاری بھرکم وفد مذاکرات کیلئے مظفرآباد بھیجیں۔ ایکشن کمیٹی کے سرکردہ لوگ نئی نسل کے نمائندے ہیں کیونکہ ان کا رویہ ماضی کے رویوں سے بالکل جدا رہا۔ ایک تو انہوں نے ثابت کیا کہ وہ کشمیری عوام کے حقیقی نمائندے ہیں اور ان کی کال پر پورا آزاد کشمیر بند ہو جاتا ہے۔ دوسرا انہوں نے اپنے مطالبات منوا کر چھوڑے۔
پاکستان کا کوئی اور علاقہ ہوتا تو ایسے مطالبات کی جسارت کرنے کا سوچنا بھی مشکل تھا لیکن یہ آزاد کشمیر تھا جہاں فوج اور حکومت دونوں کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے چنانچہ مطالبات تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ کہاں وہ دن کہ کشمیریوں کو بزدلی کے طعنے دیے جاتے تھے اور آج یہ حال ہے کہ سیاست کا ایک نیا باب آزاد کشمیر کی وادیوں اور پہاڑوں پر لکھا جا رہا ہے۔
