امریکہ نے 2019 میں پاک بھارت نیوکلیئر جنگ چھڑنے سے کیسے روکی ؟

2019 میں بالاکوٹ پر بھارتی فضائیہ کے حملے کے بعد پاکستانی ائیر فورس کی جوابی کارروائی کے نتیجے میں دونوں ہمسایوں کے مابین نیوکلئیر جنگ چھڑنے کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا جسے امریکہ نے رکوایا تھا۔ تاہم اس مرتبہ امریکی صدر ٹرمپ نے ہاتھ کھڑے کر دیے ہیں اور دونوں ملکوں کو مشورہ دیا ہے کہ اپنے معاملات خود سنبھالیں۔
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار جاوید چوہدری اپنی تازہ تحریر میں 2019 کے حالات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ 14 فروری 2019 کی بات ہے‘ مقبوضہ کشمیر کے ضلع پلوامہ میں جموں سرینگر نیشنل ہائی وے پر انڈین فوج کے قافلے پر خود کش حملہ ہوا جس میں کے 40 فوجی جوان ہلاک ہو گئے‘ یہ حملہ عادل احمد ڈار نام کے ایک کشمیری نوجوان نے کیا تھا‘ جس کا تعلق جیش محمد سے تھا۔ بھارت نے فوری طور پر پاکستان پر الزام لگا دیا اور وہی صورت حال پیدا ہو گئی جو اس وقت سرحدوں پر دکھائی دے رہی ہے۔ بھارتی میڈیا نے دعویٰ کیا کہ یہ حملہ مولانا مسعود اظہر نے کروایا ہے‘ پاکستان نے فوری طور پر بھارت کو آزادانہ تحقیقات کی پیش کش کر دی لیکن نہ صرف یہ آفر مسترد کر دی گئی بلکہ فوری جواب کی دھمکی بھی دے دی گئی۔
وزیراعظم عمران خان نے اس کے بعد تقریر کی اور مودی کو وارننگ دی کہ اگر بھارت نے اگر کسی قسم کا مس ایڈونچر کیا تو ہم اس کا بھرپور جواب دیں گے‘ پاکستان کا پیغام صاف تھا مگر بھارت اسے انڈرسٹینڈ نہ کر سکا لہٰذا اس نے پلوامہ واقعے کے 12 دن بعد 25 اور 26 فروری کی درمیانی رات بالاکوٹ پر سرجیکل سٹرائیک کر دی‘ بھارت کے دوطیارے صبح ساڑھے تین بجے پاکستانی حدود میں داخل ہوئے‘ سوا دو منٹ میں بالاکوٹ کے جنگلوں میں میزائل پھینکے اور واپس چلے گئے۔ ان کا ٹارگٹ بالاکوٹ کا ایک جہادی مدرسہ تھا لیکن یہ خوف کی وجہ سے اسے نشانہ نہیں بنا سکے اور جنگل میں دو کوے مار کر واپس چلے گئے۔
26 فروری کی صبح پاکستانی فوجی اور سویلین قیادت کی میٹنگ ہوئی جس میں دو آپشنز ڈسکس ہوئے‘ پہلا بھارت کے ساتھ مکمل جنگ شروع کرنے کا تھا اور دوسرا آپشن بھارت میں داخل ہو کر بالاکوٹ حملے کا جواب دینے کا تھا۔ طویل بحث کے بعد وزیراعظم نے دوسرے آپشن کی منظوری دے دی یوں 26 فروری کو آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ (Swift Retart) کی منصوبہ بندی شروع ہو گئی۔
جاوید چوہدری بتاتے ہیں کہ پاکستان نے رات کی بجائے دن کے وقت اور ایک کے بدلے بھارت کے چھ مقامات کو نشانہ بنانے کا فیصلہ کیا‘ اس زمانے کے ڈی جی ملٹری آپریشن اور ڈائریکٹر ملٹری آپریشن نے جی ایچ کیو میں یہ پلان بنایا۔ پاکستان ائیرفورس کے طیارے 27 فروری 2019 کی صبح جموں اور کشمیر کے دو سیکڑز پونچھ اور نوشہرہ کے راستے بھارتی ائیرفورس کے چھ اہم بیسز پر پہنچ گئے‘ ان لوکیشنز میں کرشنا گھاٹی میں بھارتی فوج کا 25 واں ڈویژن ہیڈکوارٹر بھی شامل تھا‘ ہیڈکوارٹر میں انڈین آرمی کا بڑا بارود خانہ اور سپلائی ڈپو تھا‘ بھارتی آرمی چیف جنرل بپن راوت اس وقت اس ہیڈکوارٹر میں تھا‘ اس نے 26 فروری کو سرجیکل آپریشن کی نگرانی اسی ہیڈکوارٹر سے کی تھی‘ یہ مقام پونچھ سے 24کلو میٹر کے فاصلے پر ہے اور کرشنا گھاٹی کہلاتا ہے‘ پاکستانی طیارے ٹارگٹس پر پہنچے‘ مقامات کو لاک کیا‘ ان کی تصویریں لیں اور پھر ان ٹارگٹس سے پانچ سو میٹر دور عمارتوں اور آبادی سے فاصلے پر میزائل داغ دیے۔
حملے کے نتیجے میں بھارت کے 6 مقامات پر خوف ناک دھماکے ہوئے‘ جن کی آواز سن کر بھارتی آرمی چیف فوری طور پر بریگیڈ ہیڈ کوارٹر چھوڑ کر دلی روانہ ہو گیا‘ پاکستانی طیارے اس کے بعد واپس مڑ گئے۔ جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ میں نے اس زمانے میں آپریشن کرنے والے کرداروں سے پوچھا تھا‘ ہم جب بھارت کے اہم ٹارگٹس کو ہٹ کر سکتے تھے تو پھر ہم نے پانچ سو میٹر دور حملہ کیوں کیا؟ ان کا یہ جواب تھا کہ بھارت نے بھی صرف ہماری فضائی حدود کی خلاف ورزی کی تھی‘ ہم نے 27 فروری کو انھیں پیغام دیا کہ آپ لوگ ایک خلاف ورزی کریں گے‘ تو ہم آپ کو چھ کی شکل میں جواب دیں گے‘ دوسرا بالاکوٹ میں ان کا حملہ آبادی سے دور جنگل میں تھا‘ ہم ان کے اہم فوجی اور فضائی ٹارگٹس تک پہنچے‘ انکی تصویریں لیں‘ انھیں یہ تصویریں بھجوائیں اور انھیں پھر یہ بتایا ہم آپ کے اہم ترین ٹارگٹس کو نشانہ بنا سکتے تھے لیکن ہم سردست پانچ سو میٹر دور صرف اپنی نشانی چھوڑ کر جا رہے ہیں‘ہمیں اگر اگلی مرتبہ آنا پڑا تو ہم رعایت نہیں کریں گے‘ تیسرا تم نے رات کو حملہ کیا تھا‘ ہم دن کے وقت حملہ کر رہے ہیں۔
بہرحال قصہ مختصر پاکستانی طیاروں کی واپسی پر بھارتی فضائیہ کے طیاروں نے ان کا پیچھا شروع کر دیا‘ بھارتی طیارے جوں ہی پاکستانی حدود میں داخل ہوئے‘ پاکستانی ائیرفورس نے ان کے دو طیاروں کو نشانہ بنادیا‘ ایک طیارے کا ملبہ بھارتی سائیڈ پر گرا جب کہ دوسرا طیارہ مگ 21 پاکستانی حدود میں گرگیا‘ اس کا پائلٹ ونگ کمانڈر ابھی نندن تھا‘ بھارتی طیارے پر چارعدد میزائل لوڈ تھے مگر ابھی نندن انھیں استعمال نہیں کر سکا‘ یہ میزائل آج بھی پاکستان کے پاس موجود ہیں‘ دوسرا مگ 21طیارہ انڈین حدود میں گرا جب کہ بھارت کا ایک ہیلی کاپٹر اپنے ہی میزائل کا نشانہ بن گیا اور اس میں سوار چھ افسر اور جوان ہلاک ہو گئے۔
جاوید چوہدری کا کہنا ہے کہ یہ پاکستان کی بڑی کام یابی تھی‘ آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کو اس کے فوراً بعد امریکی سینٹ کام کے جنرل جوزف کا پہلا فون آیا‘ ان کا کہنا تھا کہ ’’جنرل آپ لوگوں نے بڑے میچور طریقے سے بدلہ لیا‘ ہماری خواہش ہے یہ معاملہ اب اس سے آگے نہ بڑھے‘‘ آرمی چیف نے جواب دیا‘ یہ ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے۔ آپ کو بھارت کو روکنا ہو گا‘ یہ اگر مزید آگے بڑھا تو ہم نہیں رک سکیں گے‘ اسے بتایا گیا ہم ایک میزائل کا جواب دو میزائلوں سے دیں گے‘ اس شام پارلیمنٹ کی سیکیورٹی کمیٹی کا اجلاس تھا۔
جاوید چوہدری بتاتے ہیں کہ آرمی چیف پارلیمنٹ کی طرف روانہ ہونے لگے تو انھیں فون پر بتایا گیا بھارت رات نو بجے پاکستان پر براہموس میزائلوں سے حملہ کرے گا‘ براہموس میڈیم رینج کروز میزائل ہے‘ آرمی چیف نے فون پر فوری حکم دیا کہ انڈیا کی پانچ ائیربیس میزائلوں سے ٹارگٹ کرنے کی تیاری شروع کر دی جائے۔ شام کو پارلیمنٹ کی سیکیورٹی کمیٹی کا اجلاس شروع ہوا‘ جس میں پوری اپوزیشن شہباز شریف اور بلاول بھٹو سمیت موجود تھی لیکن وزیراعظم عمران خان اس میں شریک نہیں ہوئے ‘ آرمی چیف نے کمیٹی کو بریفنگ دی اور فیصلہ ہوا پاکستان اپنے دفاع پر کوئی کمپرومائز نہیں کرے گا‘ اجلاس کے دوران سارا وقت آرمی چیف گھڑی دیکھتے رہے۔
ان کا خیال تھا بھارت نے اگر براہموس میزائل داغ دیے تو پھر پاکستان کے پاس جواب کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہو گا اور یوں دو نیو کلیئر پاورز میں جنگ چھڑ جائے گی‘ پارلیمنٹ کی میٹنگ کے بعد امریکا کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو کا جنرل باجوہ کو فون آ گیا‘ اس نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ مجھے بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے فون کیا اور بتایا کہ پاکستان نیوکلیئر جنگ کی تیاری کر رہا ہے‘ چنانچہ میں نے اس سے چند منٹ مانگے۔ میں نے پاکستانی آرمی چیف جنرل باجوہ کو فون کیا‘ اس نے مجھے بتایا ہم نہیں بلکہ بھارت ہم پر نیوکلیئر حملے کی تیاری کر رہا ہے‘ ہم بس اس کے جواب کی تیاری کر رہے ہیں‘ میں نے فوری طور پر دلی اور اسلام آباد میں اپنے لوگوں کو ایکٹو کیا اور انھوں نے رات بھر کی مشقت کے بعد دونوں ملکوں کو یقین دلایا کہ تم میں سے کوئی نیوکلیئر جنگ کی تیاری نہیں کر رہا۔ لہٰذا تم دونوں اپنے اپنے آرڈرز واپس لے لو، چنانچہ یوں ایٹمی جنگ ٹل گئی ورنہ اس رات بہت بڑا حادثہ ہو سکتا تھا۔
پاکستانی بری، بحری اور فضائی افواج بھارتی حملے کا جواب دینے کو تیار
امریکی وزیر خارجہ کی مداخلت کے بعد پوری دنیا سے پاکستان کے دوستوں کے فون آنے لگے‘ سعودی عرب بھی مذاکرات میں شامل ہوگیا اور یو اے ای بھی‘ برطانوی ہائی کمشنر تھامس ڈریونے جی ایچ کیو میں جنرل باجوہ سے ملاقات کی‘ ان سب کا مطالبہ تھا آپ بھارتی پائلٹ ابھی نندن کو رہا کر دیں‘نریندر مودی کی بہت بے عزتی ہو چکی ہے‘ پائلٹ کی رہائی کے مذاکرات 27 فروری کی پوری رات چلتے رہے یہاں تک کہ پاکستان راضی ہو گیا‘ جنرل باجوہ نے 28 فروری کی صبح وزیراعظم عمران خان کو فون کیا اور انھیں بتایا ہم نے بالاکوٹ کا بدلہ لے لیا ہے‘ ہمارا ہاتھ اس وقت اوپر ہے‘ ہم بھارتی پائلٹ کو چھوڑ کر جنگی صورت حال سے نکل سکتے ہیں لہٰذا ہمیں اپنے دوستوں کا مطالبہ مان لینا چاہیے۔ عمران خان نے باجوہ سے اتفاق کیا اور یوں ابھی نندن کو رہا کر دیا گیا۔