عمران کی امیدیں دم توڑ گئیں، موجودہ نظام مدت پوری کرے گا

 

عمران خان کے لیے ہمدردیاں رکھنے والے سیاستدان، لکھاری اور سابق فوجی کیپٹن ریٹائرڈ ایاز امیر نے بھی تسلیم کر لیا ہے کہ موجودہ سیاسی نظام اپنی آئینی مدت پوری کرے گا کیونکہ گراؤنڈ رولز تبدیل ہو چکے ہیں۔ انکے مطابق تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ کوئی بڑا حادثہ رونما نہ ہو تو جیسا بھی نظام ہو‘ وہ چلتا رہتا ہے بشرطیکہ فوج اُس نظام کے ساتھ چل رہی ہو۔ اس وقت یہ بنیادی شرط پوری ہوتی نظر آ رہی ہے۔

اپنے تازہ تجزیے میں کیپٹن ریٹائرڈ ایاز امیر کہتے ہیں کہ کچھ حادثات ایسے ہوتے ہیں جیسا کہ ایوبی دور میں 1965ء کی جنگ کا چھڑ جانا یا مشرف دور میں وکلا تحریک کا اچانک اُبھرنا، جن کے نتیجے میں حکمران اچانک فارغ ہو گئے۔ ایسا اس لیے بھی ہوتا یے کہ ایک لمبے عرصے تک اُسی چہرے یا چہروں کو دیکھ دیکھ کر عوام میں ایک اُکتاہٹ سی پیدا ہونے لگتی ہے اور یہ سوال کیا جانے لگتا ہے کہ فلاں چہرہ قوم کی جان کب چھوڑے گا۔ لیکن ایاز امیر کے مطابق موجودہ حکمران ابھی اس نہج کو نہیں پہنچے۔

انکا کہنا یے کہ بہرحال اہم قومی کرداروں میں ایک تبدیلی تو رونما ہو چکی ہے۔ قومی سیاست کے سٹیج سے نواز شریف کا عملاً ایگزٹ ہو گیا ہے کیونکہ کہنے اور کرنے کے لیے اُن کے پاس اب کچھ باقی نہیں رہا۔ اُن کا آخری بڑا کام اکتوبر‘ نومبر 2022 میں نئے آرمی چیف کا چناؤ تھا۔ وہ ایک بنیادی فیصلہ تھا جس کے ہو جانے کے بعد میاں صاحب کی اب کوئی خاص ریلیونس نہیں رہی۔ کیپٹن ایاز امیر کہتے ہیں کہ آصف زرداری کو ایک کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ اُنہوں نے اپنے بیٹے بلاول کی سیاسی تعلیم اچھی انداز میں کی ہے۔ اس کی عمر زیادہ نہیں لیکن اسے تجربہ خاصا مل رہا ہے۔ کہاں وہ شروع کی بے سروپا تقریریں جن میں چیخنا چلانا زیادہ ہوتا تھا اور کہاں اب کا ٹھہراؤ اور نپی تلی گفتگو۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نے حالیہ دورۂ امریکہ کے دوران انگلش میں بلاول کے دو ٹی وی انٹرویو دیکھے جن میں انہوں نے شاندار گفتگو کی اور ان کے لہجے میں ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی جھلک دکھائی دی۔

کیپٹن ریٹائرڈ ایاز امیر کا کہنا تھا کہ بلاول بھٹو کو دیکھ کر سیاست دانوں کی نئی نسل سے کچھ اچھے کی امید وابستہ کی جا سکتی ہے۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ جب تک موجودہ سیاسی نظام قائم ہے، فیصلے عوام کے ووٹوں سے نہیں ہوں گے۔ یعنی فیصلہ عوام کی عدالت کے بجائے کہیں اور ہو گا۔ (ن) لیگیوں کو یہ بات سمجھ آئے تو اُن کے لیے یہ خطرے کی گھنٹی ہے کیونکہ ان کے تقریباً سارے نوجوان رہنما آکسفورڈ قسم کی انگریزی تعلیم سے فارغ ہیں۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ گراؤنڈ رُولز بدل چکے ہیں اور یہ سب پچھلے دو سال میں ہوا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان میں آئین موجود ہے لیکن کسی کے لیے رکاوٹ نہیں بنا ہوا۔ عدالتیں تو موجود ہیں لیکن حاکموں کیلئے کوئی مسئلہ نہیں۔ جو کچھ حکمرانوں نے عدالتوں کو رام کرنے کے لیے کرنا تھا وہ 26ویں آئینی ترمیم کے ذریعے ہو چکا ہے۔ کوئی پریس اینڈ پبلی کیشن آرڈیننس نافذ نہیں لیکن حکمرانی کی راہ میں نہ اخبارات رکاوٹ ہیں نہ درجنوں کی تعداد میں ٹی وی چینل۔ سب کو سمجھ آ گئی ہے کہ کس راستے پر چلنے میں عافیت ہے۔ احتیاط کے پیچھے جو اصول کارفرما ہوتے ہیں وہ سب سمجھ چکے ہیں۔

کیپٹن ریٹائرڈ ایاز امیر کہتے ہیں کہ حکمرانوں کی جانب سے نہ تو کوئی پی سی او نافذ کیا گیا ہے اور نہ ہی مارشل لا لگایا گیا ہے، لیکن ہر چیز مکمل کنٹرول میں آ چکی ہے۔ خوبصورتی کی بات یہ ہے کہ قومی اسمبلی موجود ہے‘ سینیٹ موجود ہے‘ صوبائی حکومتیں بھی موجود ہیں‘ دھواں دار تقریریں بھی ہوتی ہیں لیکن حالات یوں بن چکے ہیں کہ ان لوازمات سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اوپر سے ہندوستان سے چار روزہ معرکے کے نتیجے میں جذبہ و جنوں کی ایک ایسی فضا بن گئی ہے کہ بہت ساری سیاسی حقیقتیں اوجھل ہو گئیں اور جو ملا جلا نظام چلایا جا رہا ہے اُسے ایک بہت زبردست نفسیاتی تقویت مل گئی یے۔

Back to top button