خفیہ ایجنسیوں کی ٹاؤٹی گنڈاپور کر رہا ہے یا علیمہ خان؟

 

خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے عمران خان سے جیل میں ملاقات کے بعد ایک گرما گرم ویڈیو پیغام جاری کرتے ہوئے جن کھلے الفاظ میں پی ٹی آئی کو تقسیم کرنے کا الزام علیمہ خان پر عائد کرتے ہوئے انہیں ملٹری انٹیلیجنس کا ٹاؤٹ قرار دیا ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اب گنڈاپور کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ہے اور وہ کسی بھی وقت کچھ بھی کر سکتے ہیں۔

تحریکِ انصاف میں گذشتہ کئی مہینوں سے اندرونی اختلافات کی خبریں گردش کر رہی ہیں لیکن ان کی تصدیق تب ہوئی جب گنڈاپور نے کھل کر علیمہ خان پر نہ صرف تنقید کی بلکہ یہ الزام بھی عائد کر دیا کہ وہ ملٹری انٹیلی جینس کے ایما پر عمران خان کی جگہ لینے کی سازش میں ملوث ہیں۔ اڈیالہ جیل میں عمران سے ملاقات کے بعد جہاں ایک ویڈیو پیغام میں گنڈاپور نے علیمہ پر پی ٹی آئی کو تقسیم کرنے کا الزام لگایا، وہیں عمران خان کی بہن نے گنڈاپور کو ایجنسیوں کا ٹاؤٹ قرار دیتے ہوئے ان سے خود پر لگائے الزمات کے ثبوت مانگ لیے۔ گنڈاپور کا کہنا ہے کہ انہوں نے عمران خان کو ساری سازش تفصیل سے بیان کر دی ہے۔ادھر ابھی تک عمران خان کی جانب سے کوئی ایسا بیان نہیں آیا جس سے یہ تاثر ملتا ہو کہ وہ اپنی بہن کے ساتھ کھڑے ہیں اور انہوں نے علی امین گنڈاپور کا یقین نہیں کیا۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی میں اختلافات کوئی نئی بات نہیں ہیں لیکن علیمہ اور گنڈاپور کے درمیان حالیہ کشیدگی کے سبب یہ اختلافات کھل کر سامنے آ رہے ہیں۔ اپنے ویڈیو پیغام میں گنڈا پور کا کہنا تھا کہ ان کی عمران سے کافی عرصے کے بعد ملاقات ہوئی ہے۔ اس سے قبل عمران کی صرف ان کی بہنوں سے ہی ملاقاتیں ہو رہی تھیں اور ان ہی کے ذریعے پارٹی معاملات پر ہدایات آرہی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے اڈیالہ جیل میں ہونے والی حالیہ ملاقات میں عمران کو آگاہ کیا کہ پچھلے چند ماہ میں کیا ہوتا رہا ہے اور پارٹی میں تقسیم کس حد تک بڑھ چکی ہے۔ گنڈا پور نے عمران خان کو بتایا کہ ’مائنس عمران مہم کی بنیاد پر پارٹی تقسیم کرنے میں علیمہ خان کا بنیادی کردار ہے اور اسی وجہ سے اب پارٹی میں مایوسی تیزی سے پھیل رہی ہے۔

گنڈاپور کا کہنا ہے کہ انھوں نے عمران خان سے کہا کہ ایسے احکامات دیں جن سے پارٹی متحد ہو سکے۔ گنڈاپور کے بعد علیمہ خان نے بھی جیل میں عمران سے ملاقات کی جس کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ نے عمران سے شکایت کی ہے کہ وہ پارٹی چیئرپرسن بننا چاہتی ہیں اور سوشل میڈیا بھی وہ ہی کنٹرول کر رہی ہیں۔ علیمہ خان کا کہنا تھا کہ پارٹی چیئرمین صرف عمران خان ہیں اور وہی رہیں گے۔ علیمہ نے نہ صرف گنڈاپور کے الزامات کو مسترد کیا بلکہ ان الزامات کے ثبوت بھی مانگے۔ اس سے قبل ماضی میں علیمہ گنڈاپور پر کئی مرتبہ سر عام تنقید کر چکی ہیں۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی میں اختلافات کے باعث گنڈاپور کو حکومت چلانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ پشاور میں مقیم صحافی فرزانہ علی نے بتایا کہ اب پی ٹی آئی میں اختلاف کھل کر سامنے آ گئے ہیں اور یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ حکومت کیسے چلے گی خصوصا جب دو اہم صوبائی وزرا نے گنڈاپور کے خلاف استعفے دے دیے ہیں۔
ان کی رائے میں سیاست کی نبض پر ہاتھ رکھنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ عمران گنڈاپور کو نہیں ہٹائیں گے کیونکہ اس سے ان کے صوبائی حکومت سے ہاتھ دھونے کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔ پشاور کے سینیئر صحافی عقیل یوسفزئی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ ان کے مطابق ’اس وقت گنڈاپور کے پاس جو سب سے طاقتور ہتھیار ہے وہ ان 30 کے قریب اراکین صوبائی اسمبلی کا ہے جو آزادانہ حیثیت سے انتخابات لڑ کر کامیاب ہوئے ہیں اور ان کے حلف نامے موجود ہیں ان کا تعلق کسی جماعت سے نہیں ہے۔ان کے مطابق اس فالٹ لائن کے ہوتے ہوئے عمران کبھی نہیں چاہیں گے کہ ان کی صوبائی حکومت گر جائے۔

لیکن تجزیہ کاروں کے مطابق سب سے زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ گنڈاپور اور علیمہ خان کے درمیان اختلافات کی وجہ کیا ہے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہئے فرزانہ علی کا کہنا تھا کہ بظاہر تو دونوں رہنماؤں کا ایک دوسرے سے کوئی مفادات کا ٹکراؤ نہیں ہے لیکن اس وقت معاملہ یہ ہے کہ سیاسی کارکن سب سے زیادہ یقین عمران کی بہنوں کی بات پر کرتے ہیں اور علی امین گنڈا پور کو پارٹی میں شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ فرزانہ کے مطابق علیمہ بھی گنڈا پور، صوبائی حکومت اور دیگر رہنماؤں پر تنقید کرتی ہیں جس سے انکے متعلق پارٹی کارکنوں میں مزید بداعتمادی بڑھتی ہے۔ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ عمران خان تک رسائی کا ہے کیونکہ آسانی سے کوئی ان سے مل نہیں سکتا ہے اور پھر جو ان سے مل کر باہر آتے ہیں تو کارکن سب سے زیادہ اعتماد عمران خان کی بہنوں کی بتائی ہوئی باتوں پرکرتے ہیں۔‘

فرزانہ علی کے مطابق علیمہ خان نے بجٹ سے لے کر اسلام آباد میں 26 نومبر کو ہونے والے احتجاج اور پھر ابھی جو پی ٹی آئی کا حالیہ جلسہ عام ہوا اس پر کڑی تنقید کی، جس سے گنڈاپور کو تکلیف پہنچی ہے۔
دوسری جانب عقیل یوسفزئی سمجھتے ہیں کہ ان اختلافات کا اثر صوبائی حکومت کی کارکردگی پر بھی پڑرہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ گنڈاپور کو اس وقت حکومت چلانے میں بھی شدید مسائل کا سامنا ہے۔بیوروکریسی کے سربراہ کسی اور کو بریفنگ دے رہے ہوتے ہیں اور وزیر اعلیٰ کے دفتر کی اس سے پریشانی میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ پی ٹی آئی کے ایک رکن قومی اسمبلی نے تایا کہ ان کی جماعت میں اختلافات اس قدر شدت اختیار کر گئے ہیں کہ عملاً پارٹی دو واضح گروپس میں تقسیم ہو کر رہ گئی ہے۔

تجزیہ کار عقیل یوسفزئی کہتے ہیں کہ ’اس وقت غیر رسمی طور پر سب کچھ علیمہ خان ہی ڈیل کر رہی ہیں اور انھوں نے عمران والا انداز سیاست اختیار کیا ہوا ہے، یعنی کسی دن بیرسٹر گوہر پر تنقید تو کسی دن کسی اور رہنما پر۔ لیکن نتیجہ یہ ہے کہ عمران خان کی جماعت تیزی سے تباہی کی جانب گامزن ہے اور عوام میں اپنی مقبولیت کھو رہی ہے۔

Back to top button

Adblock Detected

Please disable the adblocker to support us!