کیا حمزہ شہباز اپنی کزن کی جگہ وزیراعلیٰ بننےکی تیاری میں ہیں؟
سابق نگران وزیراعلی اور موجودہ وزیر داخلہ سید محسن نقوی کی پچھلے چند ماہ میں وزیراعظم شہباز شریف کے صاحبزادے حمزہ شہباز شریف کے ساتھ لاہور میں ہونے والی مسلسل ملاقاتوں نے مریم نواز کیمپ کو پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے اور یہ اندازہ لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ان دونوں کے مابین کون سی کھچڑی پک رہی ہے۔ یاد رہے کہ مریم نواز کے وزیراعلی بننے کے بعد سے حمزہ شہباز سیاسی منظر نامے سے غائب ہیں اور انہیں سیاسی طور پر کارنر کر دیا گیا ہے۔ ایسے میں یہ خبریں بھی سننے میں ارہی ہیں کہ آئی ایس آئی چیف کی تبدیلی کے بعد مریم نواز حکومت کے لیے مشکلات بڑھنے جا رہی ہیں چونکہ اب انہیں اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے اس لیول کی سپورٹ حاصل نہیں رہے گی جیسی کہ ندیم انجم کے دور میں ملتی تھی۔ سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ اب تک مریم نواز حکومت کی ایوریج پرفارمنس کے باوجود انہیں اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ حاصل تھی اور ان کی کارکردگی کو ویسے مانیٹر نہیں کیا جا رہا تھا جیسے اب کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اب مریم نواز کو عملی طور پر بطور وزیراعلی پرفارم کر کے دکھانا ہوگا ورنہ یہ کمپنی نہیں چلے گی۔
اردو نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ بات ویسے تو نارمل ہے کہ ملک کے وزیر داخلہ حکمران جماعت کے ایک رہنما سے ملاقات کر رہے ہیں۔ تاہم ان ملاقاتوں کا سیاق و سباق تھوڑی پیچیدگی پیدا کر ہی دیتا ہے۔محسن نقوی ایک سال تک پنجاب کے طاقتور ترین نگران وزیر اعلی رہے۔ ملکی سیاسی حالات کے باعث انہیں ایک منتخب چیف ایگزیکٹو کی طرح کے اختیارات میسر رہے لیکن انہوں نے اپنی سلیکشن کو محنت سے درست بھی ثابت کیا۔
نقوی حکومت نے مختصر عرصے میں جس سپیڈ سے پنجاب میں ترقیاتی پروجیکٹس شروع کر کے مکمل کیے وہ سپیڈ مریم نواز کی حکومت کے لیے اب ایک چیلنج بن چکی ہے۔ یاد ریے کہ بطور وزیر اعلی، محسن نقوی صبح نو بجے سے رات تین بجے تک اپنی ٹیم کے ساتھ ان تھک کام کرتے تھے جبکہ مریم نواز صبح نو بجے سے شام پانچ بجے تک دفتری اوقات میں ہی کام کرتی ہیں اور اس کے بعد گھر سے باہر نہیں نکلتیں۔ اس لیے ان کے ناقدین کا کہنا ہے کہ پنجاب 12 گھنٹے وزیر اعلی کے بغیر ہی رہتا ہے لہذا مریم وزیراعلی بننے کے بعد سے وہ تاثر قائم نہیں کر پائیں جو نقوی کی حکومت کا تھا۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ مریم نواز کی پنجاب حکومت کی کارکردگی زیادہ تر ٹی وی اور اخبارات کے اشتہارات میں نظر آتی ہے لیکن عملی طور پر نہ وہ خود کہیں موجود ہوتی ہیں اور نہ ان کی حکومت کہیں نظر آتی ہے۔ ان حالات میں اگر وزیر داخلہ محسن نقوی وزیراعظم شہباز شریف کے صاحبزادے حمزہ شہباز سے لاہور پہنچ کر اوپر تلے ملاقاتیں کرتے ہیں تو یہ نارمل نہیں خصوصا جب یہ عمومی تاثر پایا جاتا ہے کہ مریم نواز نے اپنے چچا اور کزن دونوں کو فارغ کر رکھا ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف اکثر یہ گلہ کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ مریم نے انہیں اسلام اباد کی حد تک محدود کر دیا ہے اور وہ صرف 17 کلو میٹر علاقے کے وزیر اعظم ہیں۔ ان کا گلہ ہے کہ مریم نہ تو سیاسی معاملات میں ان سے مشورہ کرتی ہیں اور نہ ہی پنجاب کے حوالے سے کبھی کوئی مشورہ کیا ہے۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ نواز شریف نے بھی وفاقی حکومت کے ساتھ سوتیلوں سا رویہ اپنا رکھا ہے۔ ان حالات میں حمزہ شہباز مکمل طور پر کارنر ہو چکے ہیں اور وہ نہ پنجاب میں اور نہ ہی وفاق میں کہیں نظر آتے ہیں۔
دوسری جانب یاد ریے کہ جب محسن نقوی نگران وزیراعلی تھے اور شہباز شریف وزیر اعظم تھے تو وفاقی اور پنجاب حکومت کے مابین مثالی تعلقات سمجھے جاتے تھے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے تو محسن نقوی کی برق رفتاری سے متاثر ہو کر اپنا شہباز سپیڈ کا اپنا ٹائٹل سرنڈر کرتے ہوئے محسن سپیڈ کو تسلیم کر لیا تھا۔ آج بھی محسن نقوی اور شہباز شریف کے بہترئن ذاتی اور سیاسی تعلقات ہیں جس کا ایک بڑا ثبوت یہ ہے کہ ویک اینڈ پر اکثر شہباز شریف اپنے گھر سے دیسی مرغ اور مٹن پلاؤ بنوا کر محسن نقوی کے گھر بھجواتے ہیں۔
اس دوران چند ماہ سے ایک نئی ڈویلپمنٹ یہ ہوئی ہے کہ محسن نقوی لاہور پہنچ کر حمزہ شہباز کے پاس چلے جاتے ہیں اور دونوں گھنٹوں گفتگو کرتے ہیں۔ یہ دونوں مل کر کون سی کھچڑی پکا رہے ہیں اس بارے میں ابھی تک کوئی خبر باہر تو نہیں نکلی لیکن مریم نواز کیمپ پریشانی میں مبتلا ہو چکا ہے اور اس خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ کہیں حمزہ کو دوبارہ وزیراعلی بنانے کی کوئی سکیم تو تیار نہیں کی جا رہی۔
یاد رہے کہ الیکشن 2024 کے بعد پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت بننے کے بعد محسن نقوی نے اب تک وزیر اعلی مریم نواز سے صرف ایک رسمی الوداعی ملاقات کی ہے جب کہ انہیں وزیر اعلی کا منصب سنبھالے آٹھ مہینے ہو چکے ہیں حالانکہ وزیر داخلہ تقریبا ہر ہفتے لاہور آتے ہیں جہاں ان کی رہائش گاہ بھی ہے اور پی سی بی کا ہیڈ آفس بھی موجود یے۔ تاہم پچھلے دو ماہ میں انہوں نے کچھ وقت کے لیے پنجاب کے وزیر اعلی بننے والے حمزہ شہباز سے ان کی رہائش گاہ پر جاکر کئی ملاقاتیں کی ہیں۔ ان دونوں کی آخری ملاقات 8 اکتوبر کی شام کو ہوئی۔
اس سیاق و سباق میں دو مزید باتوں کا ذکر کرنا بھی لازم ٹھہرتا ہے جس سے وفاق اور پنجاب کی حکومتوں کے مابین ٹینشن ظاہر ہوتی ہے۔ پہلی بات یہ کہ جب محسن نقوی نے وفاقی وزیر داخلہ کا قلم دان سنبھالنے کے بعد پنجاب سے اپنی مرضی کے پولیس افسران لینے چاہے تو مریم حکومت نے انہیں ایسا کرنے سے روکنے کی کوشش کی۔ تاہم بعد ازاں فوجی اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت پر پنجاب حکومت کو علی ناصر رضوی کو ریلیو کرنا پڑا جنہیں اسلام اباد کا آئی جی بنا دیا گیا۔ علی رضوی ماضی میں بھی نگران وزیراعلی محسن نقوی کی ٹیم کا حصہ تھے۔ اسی طرح محسن نقوی نے سابق کمشنر لاہور علی محمد رندھاوہ کو پنجاب سے ریلیو کروا کر اسلام اباد کا چیف کمشنر بنوایا جس پر مریم نواز خوش نہیں تھیں۔
وفاق اور پنجاب کے مابین اضطراب کا اظہار اس حقیقت سے بھی ہوتا یے کہ شہباز شریف کے وزیراعظم بننے اور مریم نواز کے وزیر اعلی پنجاب بننے کے بعد حمزہ شہباز سیاسی طور پر اپنی ہی پارٹی میں گوشہ نشین ہو چکے ہیں۔ مریم نواز کے وزیراعلی پنجاب بننے کے بعد بظاہر حمزہ کے لیے آگے بڑھنے کا کوئی راستہ باقی نہیں رہا۔ لہذا سوال یہ ہے کہ اس صورت حال میں وزیر داخلہ محسن نقوی اور حمزہ شہباز کے درمیان قربت کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟
اس سوال پر لیگی قیادت تو بات کرنے سے گریزاں ہے تاہم ایک اہم لیگی رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے شرط پر بتایا کہ اس کی وجہ صرف مریم نواز کو پیغام دینا ہے کہ اپنی موجودہ پالیسی پر نظرثانی کریں۔ انہوں نے بتایا کہ حمزہ شہباز کو پچھلے دنوں وزیر اعظم نے باقاعدہ نوٹیفکیشن کر کے یہ ذمہ داری سونپی تھی کہ وہ پنجاب کے ایم این ایز اور ایم پی ایز کی معاونت کریں گے اور ان کے مسائل حل کرنے کے لیے وزیراعظم ہاؤس اور ان کے درمیان پل کا کردار ادا کریں۔ تاہم حمزہ شہباز نے اس کام میں زیادہ دلچسپی اس لیے ظاہر نہیں کی کہ ایم این اے اور ایم پی اے حضرات کے زیادہ تر کام پنجاب سے متعلقہ ہوتے ہیں اور پنجاب حکومت ان کے ساتھ بالکل تعاون نہیں کرتی۔
تاہم اس حوالے سے جب حمزہ شہباز کے ترجمان عمران گورائیہ سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’ایسی قیاس آرئیوں سے گریز کرنا چاہیے۔ یہ درست ہے کہ محسن نقوی اور حمزہ شہباز کی ملاقاتیں ہوئی ہیں جو ون آن ون تھیں اور ان میں سٹاف کا کوئی بندہ موجود نہیں ہوتا۔ لیکن میڈیا کو اس معاملے پر ٹامک ٹوئیوں سے گریز کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ’محسن نقوی وزیر داخلہ ہیں اور وہ کسی سے بھی ملاقات کر سکتے ہیں۔ یہ سوال کرنا کہ وہ کیوں ایسا کر رہے ہیں خاص طور پر سیاستدانوں سے تو یہ بالکل ہی عجیب سوال ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم بھی یہیں پر موجود ہیں اور میڈیا بھی لہذا کچھ بھی چھپا نہیں رہ سکتا۔ ان ملاقاتوں کا جو بھی نتیجہ نکلنا ہوگا وہ سامنے آ جائے گا۔