جسٹس منصور شاہ PTI کی سپریم کورٹ ونگ کے سربراہ بن گئے؟

اپنے یوتیھیے پن کی وجہ سے چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان نہ بن سکنے والے جسٹس منصور علی شاہ خود کو پی ٹی آئی کی سپریم کورٹ ونگ کا سربراہ تصور کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر پارٹی کا جھنڈا لہراتے ہوئے میدان میں اتر آئے اور چیف جسٹس یحیی آفریدی سے ججز تقرری کے لیے بلایا جانے والا سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس ملتوی کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ تاہم یحیی آفریدی نے ان کا یہ مطالبہ مسترد کر دیا۔

سندھ اور پشاور ہائی کورٹس میں اضافی ججز کی تقرری کے لیے بلائے گے عدالتی کمیشن کے اجلاس سے ایک دن قبل تحریک انصاف کا سیاسی ایجنڈا اگے بڑھانے کے لیے بدنام، جسٹس منصور علی شاہ نے اجلاس ملتوی کرنے کا تحریری مطالبہ کیا تھا تاکہ 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر کردہ پٹیشنز کا فیصلہ کیا جا سکے۔ جسٹس شاہ نے تین صفحات پر محیط خط میں چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سے مطالبہ کیا تھا کہ جے سی پی کے اجلاس کو ملتوی کر دیا جائے اور اس کے بجائے فل کورٹ کا اجلاس بلا کر 26ویں ترمیم کے خلاف زیر التوا چیلنجز کو سماعت کے لیے مقرر کیا جائے۔

تاہم چیف جسٹس یحیی آفریدی نے یہ مطالبہ ملتوی کر دیا ہے۔ یاد رہے کہ چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن سندھ ہائی کورٹ کے لیے 12 امیدواروں اور پشاور ہائی کورٹ کے لیے 12 امیدواروں کا فیصلہ کرے گا۔ اس سے پہلے جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے 4 دسمبر کے خط میں کہا کہ کمیشن کی تشکیل نو 26ویں آئینی ترمیم کے تحت کی گئی تھی، جس کی آئینی حیثیت کو چیلنج کیا گیا ہے۔
انکا موقف بھی وہی تھا جو کہ تحریک انصاف کا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف 20 سے زائد درخواستیں زیر التوا ہیں لہازا جب تک ان درخواستوں کا فیصلہ نہیں ہو جاتا، جے سی پی کے تحت کیے گئے کسی بھی فیصلے کو غیر آئینی سمجھا جائے گا۔ جسٹس شاہ نے خط میں کہا کہ ایسے میں اجلاس کا انعقاد شرمندگی کا باعث بنے گا، ان کا موقف تھا کہ جے سی پی کے ذریعے کی جانے والی تقرریوں کی آئینی حیثیت بھی مشکوک ہو گی۔
جسٹس شاہ نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے فل کورٹ کے ذریعے ان درخواستوں کو جلد از جلد سننے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔

جسٹس شاہ نے یاد دلایا کہ وہ اور جسٹس منیب اختر سابقہ تین رکنی کمیٹی کے اکثریتی ارکان کی حیثیت سے 31 اکتوبر کو اس بات پر متفق ہوئے تھے کہ 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں کو فل کورٹ کے ذریعے سماعت کے لیے مقرر کیا جائے۔ تاہم، انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ یہ درخواستیں ابھی تک رجسٹرار کے ذریعے سماعت کے لیے مقرر نہیں کی گئیں اور نہ ہی ان کی طرف سے کوئی جواب موصول ہوا۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ آئین کے آرٹیکل 191A(3) کے تحت کسی عدالت کو آئینی بنچ کے علاوہ کسی اور بنچ میں سماعت کی اجازت نہیں ہے، لیکن فل کورٹ کو کسی بھی معاملے کی سماعت سے نہیں روکا گیا ہے۔ اسکے علاوہ جسٹس منصور نے جے سی پی کو ایک علیحدہ خط لکھ کر آئین کے تحت قواعد وضع کرنے کی ضرورت پر بھینزور دیا ہے تاکہ ججز کی تقرری کے لیے طریقہ کار اور معیار فراہم کیا جا سکے۔

تاہم جسٹس منصور شاہ یوتھیا پن پر مبنی اس خط کے بعد حکومت کی جانب سے شدید تنقید کی زد میں آ گئے ہیں۔ وزیر دفاع خواجہ اصف نے ایک ٹویٹ کرتے ہوئے جسٹس منصور شاہ کو مخاطب کیا ہے اور لکھا ہے کہ بطور جج یہ سلیکٹیو سینس آف جسٹس آپ کو زیب نہیں دیتی، خواجہ آصف نے مذید لکھا کہ منصور شاہ کو خدشہ ہے کہ انکے خط پر عمل نہ ہوا تو عوام کا عدلیہ سے اعتماد اٹھ جائے گا۔ انہوں نے لکھا کہ محترم جج صاحب اعلیٰ عدلیہ کے ساتھ عرصہ دراز سے وابستہ ہیں، اس دوران عدلیہ کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ اس کے عینی گواہ ہیں، ثاقب نثار، آصف سعید کھوسہ، اعجاز الاحسن اور مظاہر نقوی عدلیہ کا وقار پامال کرنے والے چند نام ہیں جو کہ ان کے ساتھی رہے ہیں۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ بہت سارے اور جج بھی عدلیہ کے وقار کو پامال کرتے رہے ہیں، لیکن منصور شاہ کو تب عوام کا اعتماد مجروح ہونے کا خیال نہ آیا، کیا اب یہ خیال آنے کی وجہ کہیں کوئی ذاتی رنجش تو نہیں ہے؟

وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ محترم شاہ صاحب آپ بہت بڑے مقام پہ فائز ہیں، میرے لیے آپ محترم ہیں، محترم شاہ صاحب یہ سلیکٹیو سینس آف جسٹس آپ کے مقام کو زیب نہیں دیتا۔

Back to top button