وفاق اور پنجاب میں رابطوں کا فقدان،مریم کی شہبازسے دوری کیوں؟
وفاق میں جاری گہماگہمی کو نظر انداز کرتے ہوئے وزیر اعلی پنجاب نے اپنی تمام تر توجہ مریم برانڈ کو مزید سے مزید مضبوط بنانے پر مرکوز کر رکھی ہے اسی وجہ سے وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی تقاریر اور ایکس پوسٹوں میں سے وزیراعظم شہباز شریف کا نام تقریباً غائب ہوتا جا رہا ہے۔
مبصرین کے مطابق مسلم لیگ ن کے اندر یہ سوال ہمیشہ ہی زیر بحث رہا ہے کہ مستقبل قریب میں نون لیگ کی باگ ڈور کس کے ہاتھ میں ہو گی۔ کیا نواز شریف اپنا سیاسی اثاثے کا وارث اپنے بھائی کو بنائیں گے یا اپنی بیٹی کو جان نشین مقرر کریں گے؟ تاہم نون لیگی حلقوں کے مطابق نواز شریف مریم نواز کو اپنا سیاسی وارث بنانے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ اسی لئے نواز شریف نے خود وزیر اعظم نہ بننے کے بعد تمام تر توجہ اپنی بیٹی مریم نواز کی پنجاب میں حکومت اور سیاست کو مضبوط کرنے پر صرف کر رکھی ہے اور قائد نون لیگ وفاقی حکومت کے معاملات میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
ایک ایسے وقت میں جب مخدوش ملکی معاشی و سیاسی حالات میں مسلم لیگ ن حکومت لے کر ایک سیاسی جوا کھیل چکی ہے اور اقتدار سنبھالنے کے بعد سے وفاقی حکومت معاشی ل، سیاسی و آئینی بحرانوں سے نمٹنے میں لگی ہوئی ہے ایسے میں سیاسی حلقوں میں قائد نون لیگ میاں نواز شریف اور وزیر اعلی پنجاب مریم نواز کی وفاقی حکومت کے معاملات میں عدم دلچسپی شدت سے محسوس کی جا رہی ہے۔ جیسا کہ آج کل وفاق میں شہباز شریف کی حکومت آئینی ترمیم کے لیے سرتوڑ کوشش کر رہی ہے لیکن اس موضوع پر وزیراعلیٰ مریم نواز نے ایک لفظ بھی نہیں بولا جبکہ نواز شریف نے طویل عرصے بعد کئے جانے والی اپنے عوامی خطاب میں اس موضوع کو نظر انداز کیا۔ ایسے ہی پاکستان میں افراط زر کی شرح میں کمی آنے پر قومی اسمبلی میں روایتی حریف اور اب حلیف جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری نے وزیراعظم شہباز شریف کی تعریف کی لیکن مریم نواز نے ایسی ستائش سے خود کو دور ہی رکھا ہے۔جمعرات کو معذور افراد میں ہمت کارڈز کی تقسیم کی تقریب میں مریم نواز نے یہ تو بتایا کہ مسلم لیگ ن کی حکومت نے افراط زر چھ اعشاریہ پانچ پر پہنچا دیا ہے تاہم انہوں نے شہباز شریف کا نام نہیں لیا۔
گزشتہ چند مہینوں میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں شہباز شریف کی تقریر وہ واحد موقع دکھائی دیتا ہے جس پر مریم نواز نے ایک ایکس پوسٹ میں اس کی تعریف کی۔اسی طرح وزیراعظم شہباز شریف بھی پنجاب کے معاملات سے مکمل طور پر علیحدہ نظر آتے ہیں۔ جب سے مریم نواز وزیراعلیٰ بنی ہیں، وہ ایک مرتبہ بھی سرکاری دورے پر لاہور آئے اور نہ ہی کسی میٹنگ کا حصہ بنے۔
ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مریم نواز اور شہباز شریف کے درمیان کوئی اندرونی مسابقت ایسا تأثر قائم کر رہی ہے؟ کیا نون لیگ پر قبضے کی جنگ میں چچا بھتیجی اپنے اپنے محاذوں پر ڈٹے ہوئے ہیں؟اس سوال کے جواب میں دہائیوں سے شریف خاندان کی سیاست پر نظر رکھنے والے سینیئر صحافی سلمان غنی کہتے ہیں کہ ’یہ فریم تو ایسا ہی دکھائی دیتا ہے مریم نواز صرف اپنے آپ پر فوکس کر رہی ہیں۔ لیکن جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے، خاندان کے اندر ایسی کوئی سرد جنگ نہیں ہے بلکہ یہ خالصتا ایک سیاسی حکمت عملی معلوم ہوتی ہے۔‘سلمان غنی نے مزید کہا کہ ’وجہ یہ ہے کہ مریم نواز کو اب اپنی شناخت چاہیے، اگر انہوں نے اپنی سیاست کو آگے لے کر جانا ہے۔ میرا خیال ہے شہباز شریف بھی اس بات کو سمجھتے ہیں، اس لیے انہوں نے پنجاب کے معاملات میں اتنی بھی دخل اندازی نہیں کی جتنی وہ سندھ اور بلوچستان کے معاملات میں کرتے ہیں۔‘اپنی بات جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ن لیگ جس سیاسی مدوجزر میں ہے، اس میں اب اندرونی لڑائیاں معنی بھی نہیں رکھتی ہیں۔ اس خاندان کی روایت رہی ہے کہ اندر کچھ بھی ہو جائے، وہ باہر نہیں آنے پاتا۔ اور ایک خاموش معاہدے کے تحت سب اس حقیقت کو تسلیم کر چکے ہیں کہ نواز شریف کی مکمل ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی جانشین مریم نواز ہی ہوں گی۔ اور وہ اس تأثر کو گہرا کرنے میں پیش پیش ہیں۔‘
دوسری جانب سینیئر تجزیہ کار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ اپنی الگ سے شناخت قائم کرنا ہر سیاست دان کے لیے ضروری ہوتا ہے۔’جب حمزہ شہباز اپنے تایا کے جانشین بننے کے لیے پر تول رہے تھے اور مریم نواز ابھی سیاست میں آئی بھی نہیں تھیں، تو انہوں نے بھی اپنی کچھ خصوصیات ظاہر کی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ کہا جاتا ہے کہ پنجاب کی پارٹی میں نچلی سطح پر ابھی بھی حمزہ مقبول ہیں۔‘انہوں نے کہا کہ ’میرا خیال ہے کہ مریم نواز بھی کچھ ایسا ہی چاہ رہی ہیں کہ ان کی شناخت ان کے نام اور کام سے ہو۔ وہ ایک طرح کے مریم برانڈ پر کام کر رہی ہیں اسی لئے وہ زیادہ توجہ اپنے معاملات اور اقدامات کی تشہیر پر دے رہی ہیں۔