ماریہ بی نے ٹرانس جینڈر ’’نایاب‘‘ کو غیرملکی ایجنٹ کیوں قرار دیدیا؟

معروف فیشن ڈیزائنر ماریہ بی نے شرعی عدالت کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنانے والے ٹرانس جینڈر نایاب علی کو غیرملکی ایجنٹ قرار دیتے ہوئے لکھا کہ وہ پیسوں کے عوض غیرملکی ایجنڈے کو اگے بڑھا رہے ہیں۔
ماریہ بی نے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی زبان بتا رہی ہے کہ وہ مذہب اور پاکستانی روایات کا کتنا احترام کرتے ہیں، ماریہ بی نے انسٹاگرام پر اپنی اسٹوریز میں شرعی عدالت کے فیصلے پر ٹرانس جینڈرز کے ردعمل سمیت اسی معاملے پر اسٹوریز شیئر کیں، شرعی عدالت کے فیصلے پر سخت ردعمل دینے والے ٹرانس جینڈرز کی سوچ کو غلط قرار دیتے ہوئے لکھا کہ ان کی زبان ہی بتا رہی ہے کہ وہ پاکستانی ثقافت اور مذہب کا کتنا احترام کرتے ہیں۔
انہوں نے شرعی عدالت کے فیصلے کے بعد ٹرانس جینڈر رہنما نایاب علی کی پریس کانفرنس سے متعلق ایک سوشل میڈیا پوسٹ کا اسکرین شاٹ شیئر کیا، جس میں بتایا گیا تھا کہ نایاب علی نے پریس کانفرنس کے دوران انتہائی نامناسب زبان کا استعمال کیا۔ماریہ نے لکھا کہ غیر ملکی امداد سے ایجنڈا چلانے والے افراد کی نامناسب زبان، ان کی بدسلوکی اور ردعمل ظاہر کرتا ہے کہ وہ اسلامی طرز زندگی کا کتنا احترام کرتے ہیں۔
ماریہ بی نے اپنی ایک اور اسٹوری میں مسلمان فٹ بالر کی ایک تصویر شیئر کی، جس میں بتایا گیا تھا کہ فرینچ لیگ نے مسلمان فٹ بالر کو صرف اس لیے میچ سے باہر کردیا کیوں کہ انہوں نے ٹرانس جینڈرز کی حمایت کرنے والی شرٹ نہیں پہنی تھی۔ڈیزائنر نے تصویر کے ساتھ اپنی اسٹوری میں لکھا کہ پوری دنیا کے اسلامی ممالک میں ٹرانس جینڈرز کو غلط مانا جاتا ہے لیکن پاکستان میں ایسا کیوں نہیں؟
ساتھ ہی انہوں نے ٹرانس جینڈرز کی مہم کو غیر اسلامی قرار دیتے ہوئے لکھا کہ وہ اپنے مذہب کا دفاع کرنے کے لیے موجود ہیں، ماریہ بی نے انسٹاگرام اسٹوری میں ایک غیر ملکی ٹرانس جینڈر خاتون کی ویڈیو شیئر کی، جس میں خاتون بات کرتے ہوئے آبدیدہ ہوگئیں کہ انہوں نے جنس تبدیل کروا کر بہت بڑی غلطی کی، اب وہ ڈپریشن کا شکار ہیں۔
انہوں نے انسٹاگرام اسٹوری میں اسلام آباد میں مخنث افراد کی جانب سے کی جانے والی ایک پریس کانفرنس کی تصویر بھی شیئر کی، جس میں انہوں نے لکھا کہ خواجہ سرا افراد نے شرعی عدالتی فیصلے کا احترام کیا اور خوشی کا اظہار کیا۔
خیال رہے کہ شرعی عدالت نے 19 مئی کو ٹرانس جینڈر ایکٹ سے متعلق فیصلہ سناتے ہوئے قرار دیا تھا کہ خواجہ سرا اپنی جنس تبدیل نہیں کر سکتے اور جنس کا تعین انسان کے احساسات کی بنیاد پر نہیں کیا جا سکتا، حکم نامے میں کہا گیا کہ اسلام خواجہ سراؤں کو تمام انسانی حقوق فراہم کرتا ہے لہٰذا حکومت اس بات کی پابند ہے کہ ایسے افراد کو طبی، تعلیمی، معاشی سہولیات کے ساتھ ساتھ تمام حقوق فراہم کرے۔
بعض ٹرانس جینڈرز سرجری کے ذریعے اپنی جنس تبدیل کروا لیتے ہیں اور بعض افراد سرجریز کے بغیر ہی دستاویزات میں خود کو ٹرانس جینڈر لکھوا دیتے ہیں، اس کے برعکس خواجہ سرا یا مخنث افراد وہ ہوتے ہیں جو بعض پیچیدگیوں کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں، یعنی ان میں کچھ اعضا خواتین والے ہوتے ہیں اور کچھ اعضا مرد حضرات والے ہوتے ہیں، ماریہ بی کئی سال سے ٹرانس جینڈرز کے خلاف مہم چلاتی آ رہی ہیں، وہ ہمیشہ خواجہ سرا افراد کی حمایت اور ٹرانس جینڈرز کے خلاف بیانات دیتی دکھائی دیتی ہیں۔