1999 میں ورلڈ کپ کی ہاٹ فیورٹ پاکستانی ٹیم فائنل کیوں ہاری؟

بات فیلڈنگ کی ہو، بائولنگ یا پھر بیٹنگ کی 1999 کے ورلڈ کپ میں پاکستانی کرکٹ ٹیم ہاٹ فیورٹ کے طور پر سامنے آئی جو تمام شعبوں میں اپنی مثال آپ تھی، وسیم اکرم کی کپتانی میں ٹیم نے اہم میچز میں جاندار کارکردگی دکھائی تھی لیکن کچھ میچز میں مایوس کن پرفارمنس نے سوالات کو بھی جنم دیا تھا۔1999 کا ورلڈکپ انگلینڈ میں کھیلا گیا جس کے فائنل میں آسٹریلیا نے پاکستان کو یک طرفہ شکست دے کر ورلڈ کپ جیت لیا تھا، پاکستان ٹیم اس ورلڈ کپ میں مضبوط ترین اور چیمپیئن بننے کے لیے ہاٹ فیورٹ تھی، ٹیم کی بیٹنگ اور بائولنگ اس قدر مضبوط تھی کہ ہر بڑے تجزیہ نگار اور سابق ٹیسٹ کرکٹر نے پاکستان کی جیت کی پیشگوئی کی ہوئی تھی۔
لندن میں جمائما کے گھر کے باہر ن لیگ کے مظاہرے شروع
پاکستان نے اپنے گروپ میں ویسٹ انڈیز کے خلاف فتح سے آغاز کیا تھا اور چار میچ باآسانی جیت لیے تھے جبکہ اسے تین میچوں میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا، پاکستان بنگلہ دیش میچ میں وہ بلے باز اوندھے منہ گر پڑے تھے جو بڑی ٹیموں کے خلاف تابڑ توڑ سنچریاں بنارہے تھے، قومی ٹیم 223 رنز کا ہدف بھی عبورنہیں کر پائی تھی اور 161 رنز پر سمٹ گئی تھی۔ پاکستان بھارت میچ مانچسٹر میں کھیلا گیا جہاں بھارتی ٹیم پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے شدید مشکلات کا شکار تھی، وسیم اکرم، شعیب اختر اور اظہر محمود کی سوئنگ بائولنگ پر بھارت بمشکل تمام 227 رنز بنا سکا، پاکستان کی عظیم الشان بیٹنگ لائن نے ایک بار پھر دھوکہ دیا اور 180 رنز پر اس طرح آؤٹ ہوئی جیسے کوئی کلب ٹیم۔پاکستان سپر سکس مرحلے پر دو میچ ہار کر بھی سیمی فائنل میں پہنچ گیا جہاں اس نے نیوزی لینڈ کو یک طرفہ شکست دے کر پاکستانیوں کو یقین دلا دیا کہ 20 جون کو آسٹریلیا کے خلاف وہ شاندار کارکردگی دکھائے گا۔
اس میگا ایونٹ میں اچانک شکست پر پاکستان میں تہلکہ مچ گیا اور لوگ احتجاج کرنے لگے، الزامات کی بارش دیکھ کر تب کے وزیر اعظم نواز شریف نے ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیشن جسٹس کرامت بھنڈاری کی سربراہی میں تشکیل دیا، کمیشن نے کچھ کھلاڑیوں، چند صحافیوں اور بورڈ کے چیئرمین خالد محمود کے بیانات قلمبند کیے، کمیشن نے سست روی سے تحقیقات کرتے ہوئے۔ 2001 میں فیصلہ دیا کہ پاکستان ٹیم کے کسی فکسنگ یا کرپشن میں ملوث ہونے کےثبوت نہیں ملے اور نہ کسی کو سزا دی گئی۔
سابق فاسٹ باولر سرفراز نواز نے ورلڈکپ کے دوران ہی کہا تھا کہ پاکستان ٹیم شروع دن سے فکسنگ کرنے کا منصوبہ لے کر آئی ہے اوراس نے تین میچ فکس کیے ہیں، ٹیم کے ایک رکن اور تاحیات پابندی کے شکار سلیم ملک نے بھی بیس سال بعد منہ کھولا اور کہا مجھے خراب کھیلنے کے لیے کہا گیا تھا جس کے پیچھے فکسرز تھے۔اس ورلڈکپ کے بعد جب نواز شریف نے کمیشن تشکیل دیا تو عمران خان نے تنقید کی تھی اور کہا تھا کہ نواز شریف خود کرپٹ ہیں، انہیں کرکٹ کا کچھ پتہ نہیں، اس لیے اس شکست کو سمجھ نہیں رہے۔
ورلڈکپ 1999 کا فائنل فکس تھا یا نہیں؟ یہ معمہ آج تک حل نہیں ہوسکا ہے لیکن میچ میں پاکستان کی پسپائی اور لاپرواہی نے شکوک شبہات کو نہ صرف مستحکم کیا تھا بلکہ فائنل کے دن انگلینڈ میں شرطیں لگانے کی دکانوں پر پاکستان کی جیت پر ایک کے سو مل رہے تھے جس کے باعث جوا کھیلنے والوں نے بے تحاشہ رقم لگائی تھی اور ہر ایک کو یقین تھا کہ پاکستان جیت جائے گا۔ لوگوں کے امیر ہونے کے خواب اس دن اس ہی وقت ٹوٹنا شروع ہوگئے تھے جب پاکستان نے ابر آلود موسم میں ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا، اس ورلڈکپ کے دوران کچھ ایسی خبریں گشت کر رہی تھیں کہ ایک حکومتی پارٹی کے رہنما ٹیم کو ہدایات دے رہے ہیں، پاکستان کے کوچ جاوید میاں داد نے ورلڈ کپ سے چند ہفتے قبل استعفی دے دیا تھا۔
کچھ حلقوں کے مطابق ان سے استعفے لیا گیا۔ ورلڈکپ سے دو دن قبل مشتاق محمد کو کوچ مقرر کیا گیا جبکہ جنوبی افریقی کوچ رچرڈ پائی بس اسسٹنٹ کوچ بنائے گئے۔ ناقدین پائی بس کی نامزدگی کو بھی فکسنگ سے جوڑتے ہیں جن سے مشتاق محمد خوش نہ تھے۔
پائی بس اگلے ورلڈکپ تک پاکستانی ٹیم کا تیاپانچہ کرتے رہے اور آخر کار اگلے ورلڈکپ کی شرمناک شکست کے بعد رخصت ہوگئے، اس دوران وسیم راجہ اور مدثر نذر بھی کوچ بنے لیکن ان دونوں کی ٹیم سے نہ بن سکی، تاریخ آج بھی اس فائنل میچ میں شکست کے ذمہ داروں کو تلاش کر رہی ہے۔