اقتدار کی کشمکش پاکستان کا نقصان کیسے کر رہی ہے؟

75 برس پہلے قیام پاکستان کے بعد سے شروع ہونے والی اقتدار کی کشمکش اب تیز تر ہوچکی ہے اور دونوں فریقین ایک دوسرے کی مخالفت میں ایسے اقدامات کرنے پر اتر آئے ہیں جن کا نقصان پاکستان کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ معروف صحافی نصرت جاوید کے مطابق پنجاب میں گزشتہ کئی ہفتوں سے جاری عدم استحکام اور دونوں فریقین کی من مانیاں 1950 کی دہائی کے آغاز والے مناظر دہرا رہی ہیں۔ آبادی کےلحاظ سے ہمارے سب سے بڑے اور اٹک سے رحیم یار خان تک پھیلے صوبہ پنجاب میں کئی ہفتوں سے جو سیاسی ابتری کی صورت حال ہے اس کا حل اس ”تحریری آئین“ میں موجود ہے جو شاید اب دکھاوے کے لیے رہ گیا ہے حالانکہ اس آئین میں آپا دھاپی روکنے کے ہر ممکنہ اقدامات میسر ہوتے ہیں۔ لیکن پتہ نہیں انہیں بروئے کار لانے کا تردد کیوں نہیں کیا جا رہا۔
اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں نصرت جاوید کہتے ہیں کہ کسی بھی مالی سال کے آغاز سے قبل وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو جون کے مہینے میں متعلقہ اسمبلیوں کے روبرو بجٹ پیش کرنا ہوتا ہے۔ اس کی منظوری 30جون سے قبل لازمی ہے۔وگرنہ جولائی کا آغاز ہوتے ہی سرکار معطل و مفلوج محسوس ہونا شروع ہو جائے گی۔ سرکاری ملازمین مختلف اداروں کے لئے خدمات مہیا کرنے والے ٹھیکے داروں کو بل ادا کرنے کے بجائے اپنی تنخواہیں بھی وصول نہیں کر پائیں گے۔ پنجاب اسمبلی کے سپیکر چودھری پرویز الٰہی تاہم سالانہ بجٹ باقاعدہ انداز میں پیش کرنے کی راہ میں ہر ممکن رکاوٹیں کھڑی کئے جارہے ہیں۔ دوسری جانب حمزہ شہباز کی قیادت میں پنجاب حکومت بھی سالانہ بجٹ پیش کرنے کے بعد اب اسے منظور کروانے کی منصوبہ بندی بھی کر رہی ہے۔
لیکن پاکستان میں اقتدار کی یہ کشمکش نئی نہیں ہے۔ نصرت جاوید یاد دلاتے ہیں کہ قیام پاکستان کے چند ہی ماہ بعد پنجاب ہی میں دولتانہ -ممدوٹ کشمکش کا آغاز ہوگیا تھا۔ قائد اعظم شدید بیمار ہونے کے باوجود دونوں فریقین کو ذمہ دارانہ رویہ اختیارکرنے کی تلقین کرتے رہے۔ ان کی نصیحت کو مکاری سے نظرانداز کردیا گیا۔ ان کے انتقال کے بعد چالاک وشاطر ممتاز دولتانہ وزیر اعظم لیاقت علی خان کے ساتھ فٹ ہوگئے۔ ممدوٹ کو وزارت عظمیٰ سے فارغ کروادیا۔ وہ دلبراشتہ ہوکر ”عوامی مسلم لیگ“ کے نام سے اپوزیشن کو توانا بنانے کی جدوجہد میں مصروف ہوگئے۔ اس خواہش میں ان دنوں کے انتہائی قدآور سیاستدان حسین شہید سہروردی سے روابط بھی استوار کئے۔ لیاقت علی خان مگر سہروردی سے خائف رہتے تھے۔ ان کی سرپرستی میں انہیں ”غدار“ پکارنے کا سلسلہ بھی شروع ہوا۔ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم کو لیکن راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے قتل کردیا گیا۔ قاتل کو گرفتار کرنے کے بجائے گولی مارکر جائے وقوعہ پر ہلاک کر دیا گیا۔ آج تک اس قتل کے حقیقی ذمہ داروں کا سراغ نہیں ملا ہے۔ ان کے قتل نے مگر ملک غلام محمد جیسے سازشی افسر کے بااختیار گورنر جنرل بن جانے کی راہ بنائی۔ ان دنوں کی افسر شاہی کے کلیدی ستونوں کے ساتھ مل کر موصوف جمہوری نظام کو مستحکم کرنے کے بجائے سول اور ملٹری پر مشتمل دائمی اشرافیہ کا ملکی معاملات پر کامل کنٹرول جمانے کی کوشش میں مصروف ہو گئے۔
نصرت جاوید کہتے ہیں کہ لیاقت علی خان کی جگہ خواجہ ناظم الدین وزیر اعظم بن گئے۔ وہ بنگال کے انتہائی بااثر خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ ڈھاکہ میں ان کے آبائی گھر میں آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام عمل میں لایا گیا تھا جو بالآخر برصغیر کے مسلمانوں کے لئے جدا وطن کے حصول میں کامیاب ہوئی۔ خواجہ صاحب پرانی وضع کے شریف آدمی تھے۔ ان کے بارے میں لیکن مشہور کر دیا گیا کہ حکومتی امور پر توجہ مرکوز رکھنے کے بجائے لذیذ کھانوں سے لطف اٹھانے میں مصروف رہتے ہیں۔ ”پیٹو“ مشہور کر دیے جانے والے اس وزیر اعظم کے دور میں پہلی بار وطن عزیز میں آٹے کا بحران بھی نمودار ہوگیا۔خواجہ ناظم الدین کو اس کی وجہ سے ”قائد قلت“ پکارا گیا۔ ایسے میں میاں ممتاز دولتانہ نہایت سنجیدگی سے یہ سوچتے تھے کہ وہ ہمارے ان دنوں کے تمام سیاست دانوں کے مقابلے میں جوان ترین ہی نہیں ذہین ترین بھی ہیں۔وزارت عظمیٰ ان کا پیدائشی حق ہے۔لاہور سے ابھرے ملک غلام محمد نے پنجاب کے وزیر اعلیٰ دولتانہ کو سازشی تھپکی فراہم کرنا شروع کردی۔ دولتانہ نے خود کو ”مرد بحران“ ثابت کرنے کے لئے پنجاب میں جان بوجھ کر مذہبی جذبات بھڑکانا بھی شروع کردئیے۔ اس کی وجہ سے بالآخر فسادات پھوٹ پڑے تو پاکستان میں پہلی بار ”جزوی مارشل لا“ کا نفاذ ہوا۔ اس کی بدولت فوج کو سول انتظامیہ کے روزمرہّ فرائض کی بابت کماحقہ آگاہی نصیب ہوگئی۔ عوام میں بھی یہ سوچ راسخ ہونا شروع ہو گئی کہ سیاستدان خود غرض اور نااہل ہوتے ہیں۔ امن وامان بھی یقینی نہیں بناسکتے۔ فوج ان کے برعکس انتہائی منظم ادارہ ہے۔ ملکی معاملات کا بوجھ اسے ہی اٹھانا چاہیے۔
بقول نصرت جاوید، ”جزوی مارشل لا“ نے جو ماحول بنایا بالآخر 1958ء کے اکتوبر میں لگائے مارشل لاءکا حقیقی جواز بنا۔ اس کی بدولت جنرل ایوب خان ”دیدہ ور“کی صورت نمودار ہوئے اور کامل دس برس تک شہنشاہی اختیارات کے ساتھ اس ملک پر حکومت کی۔نصرت کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں کئی افراد جن میں عمران خان جیسے قدآور سیاستدان بھی شامل ہیں آج بھی ایوب خان کے ”سنہری دور“ کو حسرت سے یاد کرتے ہیں۔ لیکن ایسا کرتے ہوئے وہ بھول جاتے ہیں کہ اس ”سنہری دور“ ہی نے ہمیں امریکی سرپرستی میں قائم ہوئے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے اداروں کا حتمی محتاج بنایا ہے۔ غیر ملکی قرضوں اور ”امداد“ سے ملک میں ”ترقی“ دکھانے کے چلن کا آغاز اسی دو ر میں ہوا تھا۔ ”ترقی“ بھی ان دنوں کے مغربی پاکستان تک ہی محدود رہی جس کی وجہ سے مشرقی پاکستان میں احساس محرومی شدید سے شدید تر ہونا شروع ہوگیا۔ اس کا نتیجہ بنگلہ دیش کے قیام کی صورت دیکھنے کو ملا۔ خدا نہ کرے کہ موجودہ سیاسی بحران کا بھی کوئی ایسا ہی نتیجہ نکلے۔