اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ ہی نواز شریف کی کامیابی کی ضمانت ہے؟
سینئر سیاسی تجزیہ کار حفیظ الله خان نیازی نے کہا ہے کہ ذوالفقارعلی بھٹو سے لے کر عمران خان تک ہر سیاسی لیڈر کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ ہی عوام میں مقبولیت کی معراج پر لے کر گیا آج نواز شریف کے پاس بھی اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ اپنانے کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ نواز شریف کی سیاست پر قوم کا اعتماد صرف اور صرف ’’ووٹ کو عزت دو ‘‘ کا بیانیہ اپنانے ہی سے بحال ہو گا اور سیاسی استحکام واپس لائے گا۔ اپنے ایک کالم میں حفیظ الله خان نیازی لکھتے ہیں کہ نواز شریف نے کہہ دیا ہے کہ انہیں انتقام کی خواہش نہیں ، بے رحم طریقے سے مملکت کو معاشی بحران میں دھکیلنے اور قومی سالمیت کو خطرے میں ڈالنے والے کردار جنرل باجوہ، جنرل فیض، جسٹس ثاقب، جسٹس کھوسہ قومی مجرم ہیں۔ انہوں نے قتل سے بڑا جُرم کیا ہے۔ ان کرداروں کو کبھی معاف نہیں کیا جا سکتا‘‘ نواز شریف کا شکریہ پوری قوم ان سے متفق ہے۔ ۔ نواز شریف نے 21 اکتوبر کو واپس آنے کا اعلان کیا ہے مجھے یقین تھا کہ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے بیانیے کے بنا نواز شریف کا نیا سیاسی سفر سعیِ لاحاصل رہتا۔ نواز شریف کا نیا بیانیہ اور قاضی فائز عیسیٰ کا چیف جسٹس بننا غیر معمولی واقعات ہیں اور پاکستان میں ایک نئی صبح کا آغاز ہو چُکا ہے. حفیظ الله نیازی لکھتے ہیں کہ وطن عزیز کی سیاسی بحرانوں اور آئین کی بے حُرمتی کے اُتار چڑھاؤ کی 70 سالہ تاریخ ہے ، اس کی موجد عسکری قیادت ہے جو مملکت کو تاحیات اپنے تصرف میں رکھنے کا عزم رکھتی ہے ۔
چنانچہ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کو آڑے ہاتھوں لینے والے سیاستدان ہی عوام الناس کی آنکھوں کا تارا بنتے ہیں۔ اگر سیاسی بیانیہ توانا ہو تو سیاست میں لیڈر کے سارے گناہ معاف رہتے ہیں۔ پاکستان کی بد قسمتی یہ ہے کہ یہاں توانا بیانیہ ایک ہی ہے وہ یہ کہ ’’اسٹیبلشمنٹ کے مدِ مقابل خم ٹھونک کر آئیں‘‘۔ پچاس کی دہائی سے جتنے سیاستدان مرجع خلائق بنے، عبدالقیوم خان، ذوالفقار علی بھٹو، نواز شریف اور اب عمران خان، سب میں ایک قدر مشترک ہے ، ان سب نے اسٹیبلشمنٹ کو للکارا اور رفعتیں پائیں۔ میں ملکوں ملکوں گھوما ہوں اور پیشتر ممالک کا نظام بنفس نفیس جانچا پرکھا ہے جس کے بعد پسماندگی اور نا خواندگی میں غرقاب ہم وطنوں کا سیاسی شعور میں نے سب سے بہتر پایا ہے ۔ بھٹو کو جب 1970 میں غریبوں بدحالوں نے ووٹ دیا تو بھٹو خصوصاً پنجاب کے لوگ تو ان کے نام سے بھی ناواقف تھے۔
بھٹو عوام کو اس لئے پسند آ گئے کیوں کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کو للکار رہے تھے، حفیظ اللہ خان نیازی بتاتے ہیں کہ 2018 میں عمران خان جب وزیراعظم بنے تو ان کا اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ ہونا مصدقہ تھا۔ قطع نظر اس کے کہ 2014 سے 2018 تک اسٹیبلشمنٹ ، عدالتی نظام اور ملکی میڈیا نے نواز شریف کو زمیں بوس کرنے کیلئے بہیمانہ طریقے سے مجرمانہ گٹھ جوڑ کیا۔ کیا نواز شریف کی مقبولیت کو نقصان پہنچا؟ ہرگز نہیں۔ 2018 میں نواز شریف ایسی مقبولیت سے پہلے کبھی متعارف نہ تھے۔ عمران خان نتیجتاً وزیراعظم تو بن گئے مگر لوگوں کی نظروں میں گِر گئے۔ حالات یہاں تک آ گئے کہ 2021میں تحریک انصاف کے بڑے بڑے قائدین سیاست بچانے مسلم لیگ ن کے ٹکٹ کے متمنی تھے۔ کیا وجہ کہ انتہائی غیر مقبول عمران خان مارچ 2022سے جچنا شروع ہو گئے ملکی سیاست جو کبھی اُنکی گرفت میں نہ تھی، چند ماہ میں وہ اُسکا محور بن گئے؟ حفیظ الله نیازی کے مطابق اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ ہی نے ان کی سیاست کو چار چند لگائے۔ عمران خان حکومت ملکی تاریخ میں ریکارڈ کرپشن، بدترین انتظامی، اقتصادی بد حالی اور سیاسی عدم استحکام سے دوچار تھی۔ جیسے ہی انہوں نے اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ اپنایا، اعوانم نے سارے کرتوت اور بری کارکرگی سے صرفِ نظر کر لیا ۔ ایک اور مثال، نواز شریف کی ہے . 2001میں جنرل مشرف کیساتھ تضحیک آمیز معاہدہ کر کے نواز شریف جلا وطن ہوئے تو مسلم لیگ ن کے لیڈرز، ووٹرز اور سپورٹر اپنے لوگوں کو منہ دکھانے کے قابل نہ تھے، یہ سب لوگ نواز شریف سے سخت نالاں ہوئے۔ بالآخر 24نومبر 2007کو نواز شریف جب پاکستان واپس آئے تو دسمبر 2021 تک 14 سال ملکی سیاست کے بے تاج بادشاہ رہے۔
کسی نے اس معاہدے کا سوال نہ کیا کہ کیوں کہ انھوں نے آتے ہی اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ اپنا لی تھا ا۔ دوسری طرف، اپریل 2022میں جیسے ہی تاثر عام ہوا کہ مسلم لیگ ن جنرل باجوہ کے استعمال میں ہے، نواز شریف کی سیاست خرچ ہو گئی، ۔ حتیٰ کہ عمران خان کا ساڑھے پانچ سال جنرل باجوہ کامہرہ ہونا قصہ پارینہ ہو گیا اور آخری 5 ماہ میں بطل حُریت بننا سیاسی دھاک بٹھا گیا۔ 2007 تک ق لیگ نے معاشی ترقی اور ملکی خوشحالی میں نام کمایا، کیا وجہ کہ 2008 کے الیکشن میں تضحیک آمیز شکست سے دوچار ہوئی وجہ یہ تھی کہ ایہ جماعت جنرل مشرف کا بغل بچہ تھی ۔ ایک مثال اور بھی ہے ایوب خان نے پاکستان کو جس ترقی اور خوشحالی سے متعارف کرایا، 1968 میں اس کا 10 سالہ جشن منانا بنتا تھا، آج بھی ہماری اُس ترقی پر گزر اوقات ہے۔ دورانِ جشن ہی، لوگوں نے ایوب خان کو گھسیٹ کر صدارتی محل سے نکال باہر کیا اور ذوالفقار بھٹو کو سر کا تاج بنایا کیوں کہ سب اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے کا جادو تھا۔ حفیظ الله نیازی لکھتے ہیں کہ دو دن پہلے نواز شریف کے پاس سیاسی بیانیہ تھا نا ان سیاست میں دم خم تھا ۔ اقتدار کی تلاش میں ’’ووٹ کو عزت دو ‘‘ والا ان کا بیانیہ عمران خان کو منتقل ہوچُکا تھا۔ یہ محض خام خیالی رہی کہ معاشی بدحالی اور مہنگائی پر وضاحتیں بیانیہ بن سکتی ہیں یا آسودگی لا سکتی ہیں ۔ نواز شریف کا 20اکتوبر 2020 کی اپنی تقریر دُہرانا اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ اپنانا ملکی سیاست میں بھونچال لے آیا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے مہرے سراسیمہ نظر آتے ہیں۔ لامحالہ جنرل باجوہ، جنرل فیض، جسٹس ثاقب، جسٹس کھوسہ کے سازشی جرائم کا احاطہ ہوگا تو ان کا عمران خان کا شریک جُرم ہونا اور مستفید ہونا بھی ثابت ہوگا۔ اب اسٹیبلشمنٹ کو چاہیۓ کہ خدا کے واسطے نواز شریف کے نئے بیانیے کو محفوظ راستہ دو کیوں کہ موجودہ حالات میں اسٹیبلشمنٹ کے پاس کوئی دوسری چوائس نہیں۔ اگر نواز شریف کے بیانیے کیخلاف معاندانہ ردِعمل آیا تو آج جو سیاسی خلا عمران v
شاہین آفریدی کی دعوت ولیمہ،ساتھی کرکٹرز، اہم شخصیات کی شرکت
بھر چُکا ہے ، وہ ملکی سالمیت کا مکو ٹھپنے کیلئے کافی ہے۔