پی ٹی آئی میں اختلافات کے بعد مذاکرات متوقع ،رکاوٹ صرف عمران خان

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی قیادت میں اندرونی اختلافات کھل کر سامنے آنے کے بعد ملک کے سیاسی منظرنامے میں ایک نئی لچک اور گنجائش پیدا ہوئی ہے۔ تاہم سیاسی بیانیہ اب بھی بڑی حد تک عمران خان کی ذات کے گرد گھوم رہا ہے۔
ایک اہم پیش رفت کے تحت، کوٹ لکھپت جیل میں قید پی ٹی آئی کے پانچ سینئر رہنماؤں نے حکومت اور پارٹی کے درمیان فوری مذاکرات کی حمایت کرتے ہوئے ایک مشترکہ خط پر دستخط کیے ہیں۔
اگرچہ اس خط میں اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت کی گنجائش کو تسلیم کیا گیا ہے، تاہم مرکزی زور سیاسی جماعتوں کے مابین براہِ راست مکالمے پر دیا گیا ہے۔ حکومت میں شامل جماعتیں، بالخصوص مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی، پہلے ہی سیاسی قوتوں کے درمیان بات چیت کی حمایت کر چکی ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کے ایک سینئر رہنما نے، نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر، کہا کہ جمہوریت کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لیے تمام فریقین کو ماضی کی تلخیوں سے سبق سیکھ کر مذاکرات کی میز پر آنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت ایک ایسا مکالمہ چاہتی ہے جس کے ذریعے جمہوری ضابطۂ اخلاق تشکیل دیا جا سکے اور سیاسی بے یقینی کا خاتمہ ممکن ہو۔
پیپلز پارٹی بھی ہمیشہ مفاہمت کی حامی رہی ہے۔ اگرچہ عمران خان ماضی میں حکومتی اتحاد سے مذاکرات کو مسترد کرتے رہے ہیں، لیکن پی ٹی آئی کی موجودہ قیادت اب اس بات پر متفق نظر آتی ہے کہ بات چیت ناگزیر ہو چکی ہے۔
پی ٹی آئی کے ایک اہم رہنما نے اس نمائندے کو بتایا کہ پارٹی مذاکرات کی حمایت دو بنیادی شرائط کے ساتھ کرے گی: اول، مذاکرات سے پہلے کوئی پیشگی شرط نہ رکھی جائے؛ دوم، مکالمے کو مصنوعی ڈیڈ لائنز سے محدود نہ کیا جائے۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق نے پی ٹی آئی رہنماؤں کا جیل سے جاری کردہ خط ایک دانشمندانہ قدم قرار دیا۔ سوشل میڈیا پر اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ اگر دشمن ممالک بات چیت کر سکتے ہیں، تو ملک کی سیاسی قوتوں کو بھی مکالمے سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔
انہوں نے متنبہ کیا کہ اگر پی ٹی آئی نے محرم الحرام کے بعد احتجاجی تحریک شروع کرنے کی کوشش کی تو یہ شدید گرمی، تنظیمی کمزوری، داخلی اختلافات اور ریاستی ردعمل کے باعث ناکام ہو سکتی ہے۔
فیصل کنڈی کاتحریک عدم اعتماد کاعندیہ،گورنرکی کوئی حیثیت نہیں،گنڈاپورکاجواب
سعد رفیق نے ایک جامع اور جدید "چارٹر آف ڈیموکریسی” کی ضرورت پر بھی زور دیا، جس کے بغیر جمہوری عمل کے تسلسل کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
تاہم ان تمام کوششوں کے باوجود، فیصلہ کن اختیار اب بھی عمران خان کے پاس ہے۔ حکومتی سطح پر مذاکرات کی دعوت دی جا چکی ہے، جیل میں موجود پی ٹی آئی رہنما آمادہ ہیں، لیکن حتمی فیصلہ اب بھی عمران خان کی منظوری سے مشروط ہے۔
ماضی میں عمران خان نے مذاکرات کی اجازت تو دی، لیکن بعد ازاں خود ہی شرائط عائد کر کے محدود مدت دی، اور ڈیڈ لائن مکمل ہونے سے قبل ہی بات چیت ختم کر دی۔
بعد میں انہوں نے واضح کیا کہ وہ صرف اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت کریں گے، لیکن فی الوقت اسٹیبلشمنٹ ایسی کسی سرگرمی میں دلچسپی لیتی نظر نہیں آ رہی۔
پی ٹی آئی کے ایک سینئر رہنما نے، نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر، کہا کہ بغیر شرائط اور بغیر ڈیڈ لائنز کے بات چیت ہی کارآمد ہو سکتی ہے، لیکن اصل اختیار اب بھی عمران خان کے پاس ہے۔