پاک افغان مذاکرات بحال مگر پانی کا مسئلہ بھی کھڑا ہوگیا

افغان حکام کی جانب سے دریائے کنٹر پر ڈیم بنانے کے اعلان کے بعد دونوں ممالک کے مابین آبی جنگ چھڑنے کا امکان بھی پیدا ہو گیا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے مابین نرم گرم مذاکرات کے ساتھ سرحدی کشیدگی بھی جاری ہے، لیکن اب ایک اور محاذ پر بھی رسہ کشی شروع ہو گئی ہے، اور وہ ہے دونوں ممالک کے مابین پانی کی تقسیم کا۔

استنبول میں پاک افغان امن مذاکرات کی ناکامی کے اعلان کے بعد وزیر داخلہ محسن نقوی کی کوششوں کے نتیجے میں مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ انہیں نتیجہ خیز بنایا جا سکے۔ پاکستان کا مطالبہ ہے کہ افغان حکومت تحریری ضمانت دے کہ اسکی سرزمین سے پاکستان پر دہشت گرد حملے نہیں ہوں گے، اسلام آباد کا یہ مطالبہ تسلیم نہ ہونے پر مذاکرات کو بے نتیجہ قرار دے کر ختم کر دیا گیا تھا لیکن اب وزیر داخلہ محسن نقوی کی کوششوں کے نتیجے میں ترکی نے دونوں ممالک سے درخواست کی ہے کہ امن کی خاطر ایک آخری کوشش کر لی جائے۔ یاد رہے کہ گزشتہ روز وزیر داخلہ محسن نقوی نے ایران میں افغانستان کے نائب وزیر داخلہ سے ملاقات کی تھی۔

دوسری جانب دونوں ممالک کے مابین ایک اور تنازع کھڑا ہو گیا ہے۔ افغان حکومت نے اعلان کر دیا ہے کہ وہ دریائے کنڑ پر ڈیم بنانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ یہ اعلان براہِ راست طالبان کے سپریم لیڈر ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ کی جانب سے آیا ہے۔ افغان وزیر برائے پانی اور توانائی عبدالطیف منصور نے کہا ہے کہ افغانستان کو اپنا پانی اپنی مرضی سے استعمال کرنے کا حق ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ڈیم بیرونی کمپنیاں نہیں بلکہ خود افغان کمپنیاں بنائیں گی۔ اس سے قبل انہوں نے کہا تھا کہ اس منصوبے پر دو سے تین ارب ڈالرز لاگت آئے گی اور یہ پراجیکٹ جلد شروع کر دیا جائے گا۔

یاد رہے کہ یہ منصوبہ نیا نہیں ہے، اور اس پر کئی عشروں سے مختلف افغان حکومتیں غور کرتی چلی آئی ہیں۔ 2013 میں صدر حامد کرزئی اور وزیر اعظم نواز شریف کے دور اقتدار میں کنڑ ڈیم پراجیکٹ پر دونوں ملکوں کا ایک معاہدہ بھی ہو چکا ہے، مگر موجودہ افغان حکومت سابق معاہدوں کو نہیں مانتی۔ اگر کنٹر دریا کے پانی کا بہاؤ متاثر ہوا تو پاکستان پر گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں کیوں کہ اس دریا کا دریائے کابل کے پانیوں میں 75 فیصد حصہ ہے جو خیبر پختونخوا کو سالانہ ایک کروڑ 65 لاکھ ایکڑ فٹ پانی فراہم کرتا ہے، اس سے زمینیں سیراب ہوتی ہیں، پینے کا پانی ملتا ہے اور اسی پر ورسک بجلی گھر بھی قائم ہے۔

لیکن جب نقشے پر دیکھیں تو پتہ چلے گا 480 کلومیٹر طویل دریائے کنڑ دراصل پاکستان کے ضلع چترال کے چیانتر گلیشیئر سے نکلتا ہے۔ افغان طالبان جب سے اقتدار میں آئے ہیں، پانی کے معاملے پر بہت توجہ دے رہے ہیں۔ انہوں نے آمو دریا سے 285 کلومیٹر لمبی قوشی تیپی نہر نکالی ہے جس کا ہدف ساڑھے پانچ لاکھ ہیکٹر زمین سیراب کرنا ہے۔ اس نہر پر ازبکستان اور ترکمانستان دونوں تحفظات ظاہر کر چکے ہیں کیوں کہ ان کا کہنا ہے کہ اس سے آمو دریا کے پانی کا بہاؤ 25 سے 30 فیصد تک متاثر ہو سکتا ہے۔ ادھر انڈیا بھی افغانستان میں پانی کے منصوبوں کے لیے تعاون فراہم کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ افغان انڈیا فرینڈشپ ڈیم افغانستان کے بڑے ڈیموں میں سے ایک ہے جسے انڈیا نے تعمیر کروایا تھا اور وزیرِ اعظم نریندر مودی نے اس کا افتتاح کیا تھا۔

حال ہی میں جب افغان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی انڈیا کے دورے پر گے تو دونوں ممالک کے مابین پانی اور بجلی کے کئی منصوبوں میں تعاون پر اتفاق کیا گیا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان کا انڈیا سے مشرقی دریاؤں پر تنازع چل رہا ہے، اب مغربی سرحد پر بھی پانی کا مسئلہ کھڑا ہونا ایک پریشان کن معاملہ ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان سندھ طاس معاہدہ طے تھا جو بھارت نے پاکستان پر حملے کے بعد معطل کر رکھا ہے۔ لیکن پاکستان کا افغانستان کے ساتھ پانی کی تقسیم کا کوئی معاہدہ نہیں، اس لیے یہ معاملہ مزید پیچیدہ ہو گیا ہے۔

مذاکرات کی ناکامی کے بعد پاک افغان جنگ چھڑنے کا خدشہ

تاہم تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان کے پاس ترپ کا یہ پتہ موجود ہے کہ پاکستان دریائے چترال کے پانی کو موڑنے کے منصوبے پر غور کر رہا ہے، اس منصوبے کے تحت دریائے چترال کا رخ سوات کی طرف کیا جانا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس کے راستے میں بلند و بالا پہاڑ آتے ہیں جن کے اندر سے سرنگ نکال کر ہی دریا کو موڑا جا سکتا ہے۔ انجینیئرنگ کے نقطۂ نظر سے یہ منصوبہ انتہائی مشکل دکھائی دیتا ہے۔ اس کے علاوہ یہاں کثیر تعداد میں زلزلے بھی آتے رہتے ہیں اس لیے اتنے بڑے انفرا سٹرکچر کی عمر پر بھی سوالیہ نشان ہیں۔ لیکن سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان اور افغانستان دونوں کو یہ منصوبے انتہائی مہنگے پڑیں گے اور یہ واضح نہیں ہے کہ ان کے لیے پیسہ کہاں سے آئے گا۔

Back to top button