پاکستانی عوام عقل کی بجائے جذبات سے کیوں کام لیتے ہیں؟

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ تضادات اور اندرونی خلفشار کے شکار پاکستان کا بنیادی مسئلہ جذباتیت ہے کیونکہ یہاں عقل کی بجائے جذبات کی حکمرانی ہے، پاکستانی عوام میں محبت ہے تو شدت کی ہے اور نفرت ہے تو وہ بھی انتہا کی۔ یہاں دلیل اور منطق کو ماننے کی بجائے دل کی بات مانی جاتی ہے حالنکہ دنیا بھر میں اب کوئی بھی ایسے نہیں سوچتا جیسے پاکستانی سوچتے ہیں۔

اپنی تازہ تحریر میں آج کے پاکستان کا نقشہ بیان کرتے ہوئے سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ عوام ریاست اور فوج کو برا بھلا کہہ رہے ہیں، جب کہ ریاست کو عوام سے شکوے ہیں، ووٹر، سیاستدانوں کو اچھا نہیں جانتے اور سیاستدان ووٹر کو بے شعور سمجھتا ہے، صحافی سیاست اور تعصب کا شکار ہیں، وہ سچ لکھتے ہیں تو لوگ ناراض ہوتے ہیں، ان کی مرضی کا سچ لکھیں تو واہ واہ کرتے ہیں، ان سے اختلاف کریں تو گالیوں پر اُتر آتے ہیں۔ انکے بقول پاکستانی اساتذہ جو کچھ پڑھاتے ہیں اس کا عملی زندگی سے کوئی تعلق نہیں، یہاں تحقیق کے نام پر جو کام کیا جاتا ہے وہ الماریوں کی زینت بنتا ہے اس سے کوئی عملی فائدہ نہیں ہوتا۔

سہیل وڑائچ کے بقول پاکستان کے سب سے بڑے جرائم میں جائیدادوں پر قبضہ اور لوگوں سے فراڈ سامل ہیں، یہاں متاثرہ فریق برسوں ایڑیاں رگڑتا ہے، عدالتیں رشوت لے کر لمبے سٹے آرڈر دے دیتی ہیں،کئی وکلا، پولیس اور قبضہ گروپس آپس میں مل کر لوٹ مار میں مصروف ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اج کے پاکستان میں سب سے امیر صنعت کار نہیں بلکہ پراپرٹی ڈیویلپرز ہیں اور حد یہ ہے کہ یہاں پر سیاست میں بھی سب سے بااثر وکلا، سیاستدان، صحافی یا علماء نہیں بلکہ پراپرٹی ڈیویلپرز ہیں۔۔یہاں بڑی بڑی حکومتی پالیسیاں اور پراجیکٹس ان پراپرٹی ڈویلپرز کے مشورے سے بنتےہیں اور پھر وہ ان سے منافع کماتے ہیں۔

ہتک عزت بل سے اصل صحافیوں کو خطرہ نہیں،عظمی بخاری

 

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں دانش، عقل اور سمجھ بوجھ نہیں بلکہ دولت، طاقت اور اسلحے کی حکمرانی ہے۔ یہاں جو جتنا امیر اور بدمعاش ہے اتنا ہی معاشرے میں بااثر بھی ہے، ہمارے شہروں میں قبضہ گروپوں اور بدمعاشوں نے علاقے بانٹ رکھے ہیں۔ ہر بڑی ڈیل اور پراپرٹی میں ان کا حصہ ہوتا ہے۔ سیاستدانوں کے بدمعاشوں اور پراپرٹی ٹائیکونز سے خفیہ اور ظاہری رابطے ہیں دونوں ایک دوسرے کے کام میں ممد و معاون ثابت ہوتے ہیں۔ ایک اور بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں کسی نے تاریخ سے سبق نہیں سیکھا، سب سیاستدان اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں جس سے پہلے وہ ڈنک کھا چکے ہوتےہیں۔ پہلے ایک پارٹی طاقتوروں سے مل کر مخالفوں کو لتاڑتی ہے اور اقتدار حاصل کر لیتی ہیں، لیکن جب دوسری پارٹی کی طاقتوروں سے ڈیل ہو جاتی ہے تو وہ مل کر اس پارٹی کو اقتدار سے بے دخل کرتے ہیں، انتقام کا یہ سرکل 75 سال سے چل رہا ہے اور ختم ہونے کو نہیں آ رہا۔ دنیا بھر کی سیاسی جماعتوں نے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ورکنگ تعلقات کے اصول بنا لئے ہیں لیکن پاکستان میں وہی 75 سال پرانے حالات ہیں۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ یہاں چھی بھلی پڑھی لکھی حتیٰ کہ ڈاکٹر بننے والی خواتین بھی شادی کے بعد گھر بیٹھ جاتی ہیں۔ اس ملک کی 51 فیصد خواتین گھروں میں بٹھا دی گئی ہیں حالانکہ اب تو بھارت کے علاوہ بنگلہ دیش اور سعودی عرب کی عورتیں بھی کام کر رہی ہیں، ہماری اپر مڈل کلاس کی خواتین اپنا علم بانٹنے کے بجائے بن سنور کر ٹی وی سیریل دیکھنے کو ترجیح دیتی ہیں، وہ معاشرے کی اصلاح یا معاشرے کی ترقی میں کردار ادا کرنے کی مشکل میں نہیں پڑتیں۔ پاکستانی معاشرے کے ہوس پرست مرد آتی جاتی خواتین کو گھورتے ہیں، وہ دفتر میں ہوں یا سٹرک پر مرد خواتین کے بارے میں کھسر پھسر کرتے ہیں، ہمارے مرد عورتوں کو آگے نہیں بڑھنے دیتے اسی لئے معاشرے میں عورت کا کام کرنا آج بھی قابل قبول نہیں ہے۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ یہاں کے لوگ بہت ہی ناشکرے ہیں۔ یہاں ہر کوئی جی بھر کر تین وقت روٹی کھاتا ہے مگر پھر بھی مسلسل ناراض رہتا ہے، اور شکوے کرتا رہتا ہے، ہمارا تاجر لاکھوں کماتا ہے لیکن یہی کہتا ہے کہ مندا چل رہا ہے، ہمارا صنعت کار کروڑوں کا منافع حاصل کرتا ہے مگر کہتا یہی ہے کہ حکومتی پالیسیاں ٹھیک نہیں۔ ہر کوئی بجلی، پانی، سڑک اور امن و امان کے نظام سے فائدہ اٹھاتا ہے مگر کہتا یہی ہے کہ ریاست ناکام ہے۔ کاریں ہیں، گھر میں دولت کی ریل پیل ہے لیکن پھر بھی اوپری طبقے یہی گردان کرتا رہتا ہے کہ "ہمارا معاشرہ زوال کا شکار ہے ‘‘۔ سہیل وڑائچ کے بقول جو ملک مالدار پاکستانیوں کو دولت، شناخت اور آزادی دیتا ہے، وہ اسی ملک کو چھوڑ کر باہر جا کر مقیم ہونے کے متمنی ہیں، ہم پاکستانی عجیب ہیں، ہم جس شاخ پر بیٹھے ہیں اسی کو کاٹتے رہتے ہیں، ہم جس ریاست کا پھل اور اناج کھاتے ہیں اسی کو کوستے رہتے ہیں، جو ریاست ہمیں پالتی، پوستی اور تعلیم و تربیت دیتی ہے، ہم ہر وقت اسی کے خلاف باتیں کرتے ہیں۔ دراصل ہم لوگوں کا سب سے بڑا مسئلہ جذباتیت ہے کیونکہ یہاں عقل کی نہیں بلکہ جذبات کی حکمرانی ہے، حالانکہ دنیا بھر میں اب کوئی بھی جذبات سے نہیں بلکہ عقل سے سوچتا ہے۔

Back to top button