عمران کا چوردروازے سے دوبارہ حکومت لینے کا منصوبہ کیا ہے؟
اڈیالہ جیل میں ایک’’پر تعیش انیکسی‘‘ میں’’رہائش پذیر‘‘ قیدی نمبر 804 منفی سیاست کی بساط بچھائے ایک بار پھر کسی چور دروازے سے اقتدار پر قابض ہونے کے لئے شطرنج کی بازیاں کھیل رہا ہے۔ایسی جیل جہاں سے بلاروک ٹوک اسے ملک میں بے چینی، عدم استحکام، افراتفری، دہشتگردی اور بغاوت پر اکسانے کے لئے ساری دنیا میں پھیلے ہوئے سوشل میڈیا بریگیڈز کو کنٹرول کرنا، وقت کے تقاضوں کے مطابق عہدیداروں کی اکھاڑ پچھاڑ اور وفاق اور صوبائی اسمبلیوں کو انتشار اور افراتفری کی اصولوں کے تحت چلانا اور سیاسی اور قانونی مشاورت کے نام پر عدلیہ کے احکامات کے تحت آزادانہ وکلا اور پارٹی لیڈروں سے ملاقاتیں عمران خان کا معمول ہیں۔عمران خان کو ہر جرم سے مبراء کرنے پر یقین رکھنے والی عدالتیں جو 9 مئی کی طے شدہ بغاوت کو بھی جھوٹ اور من گھڑت ماننے کے لئے تیار ہیں، ان عمرانڈو ججز کو کیسے یقین دلایا جا سکتا ہے کہ عمران خان ہر تخریبی کام طے شدہ منصوبے کے تحت کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔وہ قوتیں جو اس’’رہنما‘‘ کو ہر جرم اور سزا کے تصور سے مبرا سمجھتی ہیں انھیں کیسے بتایا جائے کہ ملک میں پھیلی ہوا سیاسی انتشار اور بے یقینی اسی قیدی نمبر 804 کی مرہون منت یے جو اپنے اقتدار کیلئے ملک کو کسی بھی سانحے سے دوچار کر سکتا ہے،
سینئر صحافی شکیل انجم کے مطابق ملک میں لاقانونیت، نسلوں کی گمراہی اور تباہی کا اندازہ کرنا ہے تو گزشتہ دس پرسوں پر نظر دوڑائیں تو حقائق سامنے آ جاتے ہیں ۔جس کی ابتدا 2014 میں پارلیمنٹ ہاؤس چوک میں ایک طاقتور قوت کے اشارے پر شاہراہ دستور پر ایک طویل دھرنے کی صورت میں ہوئی اور انتہا 9 مئی تھی لیکن وہ قوتیں جو یہ سمجھتی ہیں کہ عمران خان کے ساتھ زیادتیاں ہو رہی ہیں تو یہ اپنے آپ سے سوال کریں کہ کیا 2014 کے 126 روزہ دھرنے کے دوران عمران خان نے عوام کو بغاوت اور سول نافرمانی پر نہیں اکسایا تھا؟ کیا تحریک انصاف کے گمراہ نوجوانوں نے ریاست کے ٹیلی ویژن چینل یعنی پی-ٹی-وی ہیڈ کوارٹرز پر قبضہ کر کے نشریات بند نہیں کرائیں تھی؟ کیا کنٹینرز پر کھڑے ہوکر سول نافرمانی کا اعلان نہیں کیا گیا تھا؟ اور سب سےبڑا سوال یہ ہے کہ کیا دھرنے کے دوران چین کے صدر کا دورۂ پاکستان رکوانے کے اسباب پیدا نہیں کئے؟ ان جرائم کی جانب سےچشم پوشی اس لئے کی گئی کہ عمران خان کے پیچھے اس وقت کی عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ تھی اور وہ لانچ ہونے جارہے تھے! لیکن کیا قوم کے ساتھ انصاف ہوا یا صرف عمران خان کے پسند کا انصاف ہی’’لغوی انصاف‘‘ تھا۔
پنجاب اسمبلی:اپوزیشن کا احتجاج،بجٹ کی کاپیاں پھاڑ کرہوا میں لہرادیں
تاہم اب بھی جھوٹ، گالی اور بہتان کی سیاست کی بنیاد پر اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر سوار ہو کر ماضی کی طرح اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے کی کوششیں جاری ہیں اور فوجی قیادت کے ساتھ مذاکرات کے لئے’’فخر راولپنڈی‘‘ کی طرح گیٹ نمبر 4 پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں اور عمرانڈو فوجی قیادت تک رسائی رکھنے والے ہر شخص کے دروازے پر دستک دے رہے ہیں۔ عمران خان اور تحریک انصاف کے باقی لیڈرز سوشل میڈیا اور ٹیلی وژن ٹاک شوز میں عمران خان کو مظلوم ظاہر کر کے مزید سہولتوں کا مطالبہ کرتے دکھائی اور سنائی دیتے ہیں اور حیرت ہے عدل کے ایوانوں سے اٹھنے والی باد صباء کا رخ بھی انہی کی سمت ہے، یہ ہوائیں سب کو مساوی ٹھنڈک نہیں دیتیں یہ ہوائیں عدل کے ضابطوں کے تحت نہیں چلتی بلکہ ان کی تقسیم بھی صاحب ثروت کے لئے ہی ہوتی ہے۔عمران خان کو جیل میں جیل مینوئل کے برعکس مزید سہولتیں مہیا کرنے کی ہدایات دینے والی قوتیں کبھی خود ملاحظہ کریں کہ عمران خان کو اپنے دور اقتدار میں جیلوں میں بند اپنے سیاسی مخالفین کی قید کوٹھڑیوں سے پنکھے، ائیر کولرز، ٹی وی اور اس قسم کی اشیائے ضرورت اتروا کر کمزوروں کے خلاف طاقت کے استعمال پر غرور کرتے اور تکبرانہ تمسخر اڑاتے دیکھا گیا تھا اور آج وہ اپنی اس پر تعیش انیکسی اور اس میں مہیا کی گئی بیسیوں غیر ضروری سہولتوں پر بھی عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے مزید کا مطالبہ کر رہا ہے- اس انیکسی میں جدید طرز کا منی جم، ایئر کولر، مکمل کچن جس میں’’لاڈلے رہنما‘‘ کے لئے دیسی گھی میں بنے پسندیدہ کھانے تو تحریک انصاف کے ان لیڈروں کو شرم دلاتے ہوں گے جو عوام اور اسمبلیوں میں عمران خان کی مظلومیت کا رونا روتے رہتے ہیں لیکن جیل انیکسی کی منی لائبریری میں رکھی کتب میں نیلسن منڈیلا کی اپنی تصنیفات کے علاوہ ان کی 27سالہ قید کی صعوبتوں پر لکھی گئی کتب کی موجودگی عمران خان کی دہری شخصیت کی قلعی کھول رہی ہے جو عہد حاضر کا نیلسن منڈیلا ہونے کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن انہیں یہ علم نہیں نیلسن منڈیلا تشدد، ٹکراؤ اور منافقت کی سیاست پر یقین نہیں رکھتے تھےاور اب شیخ مجیب الرحمٰن کو اپنا آئیڈیل اور سیاسی گرو ماننے والے عمران خان کی زیر مطالعہ حمودالرحمن کمیشن رپورٹ ہے جس میں سے وہ پاکستان مخالف نقاط تلاش کرنے میں محو ہیں۔