ایران پر حملوں کے بعد پاکستان کو نیوکلیئر پروگرام کیسے بچانا ہے؟

معروف اینکر پرسن حامد میر نے کہا ہے کہ ایران پر حملہ کر کے امریکی صدر ٹرمپ نے دنیا کو ایک عالمی جنگ کے خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔ پاکستان نے ٹرمپ کو ایران کے خلاف جنگ میں کودنے سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن وہ باز نہیں آئے۔ لہٰذا پاکستان کو اب ٹرمپ سے کوئی اچھی توقع نہیں رکھنی چاہئے اور تمام فوکس اپنی نیوکلیئر صلاحیت کو محفوظ رکھنے پر کرنا چاہیے۔
روزنامہ جنگ کے لیے اپنے تازہ تجزیے میں حامد میر کہتے ہیں کہ صدر ٹرمپ کا ایران پر حملے کا فخریہ اعلان عالمی لاقانونیت کی ایک چیختی چنگھاڑتی مثال ہے۔ دنیا پر جنگل کا قانون نافذ کرنے کی کوشش فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ 21 جون کو حکومتِ پاکستان نے ٹرمپ کو امن کے نوبل انعام کیلئے نامزد کیا اور 22 جون کو ٹرمپ اسرائیل اور ایران کی جنگ میں کود گئے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے امریکا کی طرف سے ایران کے خلاف طاقت کے استعمال کو عالمی امن کیلئے ایک براہ راست خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یو این چارٹر اور بین الاقوامی قانون کی پابندی کی جائے۔
دوسری طرف اسرائیل کے وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے ایران پر حملے کے بعد ٹرمپ کو مبارکباد دی اور اسرائیل و امریکہ کے انتہائی پائیدار اتحاد پر فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ اطمینان کا اظہار کیا ۔ یہ نیتن یاہو کی بہت بڑی کامیابی ہے کہ وہ امریکہ کو اس جنگ میں گھسیٹ لایا ہے۔ حامد میر کہتے ہیں کہ ٹرمپ نے 19 جون کو وائٹ ہاؤس میں پاکستانی آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر کے ساتھ ملاقات کے بعد یہ اعلان کیا تھا کہ وہ ایران اور اسرائیل میں سیز فائر کیلئے دو ہفتے تک انتظار کریں گے۔ اسکے بعد استنبول میں اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ہوا جس میں سفارت کاری کے ذریعہ مسئلے کا حل نکالنے پر غور و فکر ہوا لیکن اس اجلاس کے چند گھنٹے بعد امریکہ نے ایران کی تین ایٹمی تنصیبات پر حملہ کر دیا۔ اگر ٹرمپ کچھ دن انتظار کر لیتے اور دو ہفتے کے بعد ایران پر حملہ کرتے تو شاید اتنا ردعمل نہ ہوتا لیکن موصوف نے تو دو دن بھی انتظار نہ کیا۔
سینئیر اینکرپرسن کا کہنا ہے کہ اب اسرائیل اور ایران کی لڑائی امریکہ اور ایران کی لڑائی میں بدل چکی ہے۔ ایران نے امریکی حملوں کے کچھ ہی دیر بعد اسرائیل پر نئے میزائل حملے کر دیئے۔ یواین چارٹر کے تحت ایران کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ خدشہ ہے کہ ایران کی طرف سے مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے فوجی اڈوں پر بھی حملے کئے جا سکتے ہیں لیکن اس میں کسی کو شک نہیں رہنا چاہئے کہ اسرائیل کی فوجی طاقت کا بھرم ٹوٹ گیا ہے۔ اسرائیل تن تنہا ایران کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہا اور اسی ناکامی پر پردہ ڈالنے کیلئے امریکہ کو جنگ میں گھسیٹا گیا ہے۔
وہ یاد دلاتے ہیں کہ 1967 کی عرب اسرائیل جنگ صرف چھ دن جاری رہی تھی۔ اس جنگ میں اسرائیل نے مشرقی یروشلم، غزہ اور گولان کی پہاڑیوں سمیت مصر کے اہم علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ 1973 کے ماہِ رمضان میں شروع ہونے والی عرب اسرائیل جنگ 19 دن جاری رہی جس میں مصر نے نہ صرف اپنے کئی علاقے واپس لے لئے بلکہ اس جنگ میں اسرائیل کا بہت ذیادہ نقصان بھی ہوا۔ 1982 میں اسرائیل نے لبنان پر قبضہ کر لیا۔ اس جنگ میں بھی اسرائیل کو امریکا کی مدد حاصل تھی لیکن آخر کار اسرائیل کو لبنان سے واپس جانا پڑا۔ لبنان سے اسرائیل کی پسپائی میں حزب اللہ کا کردار بہت اہم تھا ۔ حزب اللہ کو ایران کی حمایت حاصل تھی۔
حامد میر کہتے ہیں کہ 13 جون 2025 کو اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا تو پہلے مرحلے میں یقیناً اسرائیل کو برتری حاصل تھی کیونکہ اسرائیل نے ایران کی فوجی قیادت اور اہم سائنسدانوں کو اُن کے گھروں میں نشانہ بنا دیا تھا۔ یہ سب شہداء اپنے گھروں میں سوئے ہوئے تھے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ 15 جون کو مسقط میں ایران اور امریکہ کے مذاکرات ہونے ہیں اس لئے اس سے پہلے اسرائیل ل حملہ نہیں کرے گا۔ لیکن اسرائیل نے 15 جون کے مذاکرات کی آڑ میں ایرانی قیادت کو نشانہ بناتے ہوئے یہ سوچا کہ ایران میں بغاوت ہو جائے گی اور چند روز میں حکومت بدل جائے گی۔
لیکن ہوا اس کے الٹ۔ جب ایران نے اسرائیل پر جوابی حملے شروع کئے تو اسرائیل کی برتری تیزی سے ہزیمت میں بدل گئی۔ ایرانی میزائلوں نے تل ابیب اور حیفہ سمیت اسرائیل کے اہم شہروں پر کامیاب حملے کر کے دنیا کو حیران کر دیا۔ اسرائیلی شہری قبرص کے راستے ملک چھوڑ کر بھاگنے لگے تو نیتن یاہو نے ٹرمپ کو مدد کیلئے پکارا۔ ٹرمپ کی اس جنگ میں شمولیت دراصل اسرائیل کی شکست کا اعلان ہے۔ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اُنہوں نے ایران کی ایٹمی صلاحیت ختم کر دی ہے ۔ اگر یہ واقعی سچ ہے تو پھر اسرائیل کو سیز فائر کا اعلان کر دینا چاہئے کیونکہ اسرائیل نے یہ جنگ ایران کی ایٹمی صلاحیت ختم کرنے کیلئےہی تو شروع کی تھی۔ اگر اسرائیل سیز فائر نہیں کرتا اور جنگ جاری رہتی ہے تو یہ جنگ پورے خطّے میں پھیلے گی۔ اس جنگ کا سب سے زیادہ نقصان امریکہ کو ہو گا۔
حامد میر کہتے ہیں کہ امریکہ کی فوجی طاقت سے کسی کو انکار نہیں لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ اپنی تمام تر فوجی طاقت کے باوجود امریکہ کو ویتنام سے افغانستان تک جنگوں میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ 1955 میں امریکہ نے ویت نام میں جنگ شروع کی جو 20 سال تک جاری رہی۔ لیکن آخر کار امریکہ شکست سے دوچار ہوا۔ 2001 میں امریکہ نے افغانستان میں طالبان اور القاعدہ کے خلاف جنگ شروع کی۔ لیکن 20 سال کے بعد امریکہ نے طالبان کے ساتھ ایک امن معاہدہ کیا اور رسوا ہو کر بھاگ نکلا۔ جب امریکہ نے اکتوبر 2001 میں افغانستان پر حملے کئے تو پاکستان نے امریکی فوج کو اڈے دیئے لیکن تمام تر ایئر پاور کے باوجود امریکہ طالبان کو ختم نہ کر سکا۔ طالبان نے اس جنگ کو لمبا کر کے بازی پلٹ دی۔
سفارتی دروازے بند، ایران کا اقوام متحدہ کو پیغام
سینئیر صحافی کا کہنا ہے کہ افغان طالبان کے پاس میزائل نہیں تھے لیکن ایران کے پاس میزائل بھی ہیں اور ایک طاقتور نیوی بھی ہے جو آبنائے ہرمز کو بند کرکے عالمی معیشت کیلئے بحران پیدا کرسکتی ہے۔ پاکستان نے امریکہ کو ایران کے خلاف جنگ میں حصّے دار بننے سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن ٹرمپ نہیں مانے۔ ایران پر حملہ کر کے انہوں نے عالمی امن کو خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔ اب وہ امن کے نہیں جنگ کے پیامبر بن چکے ہیں۔ اُنکی سیاسی و اخلاقی ساکھ بُری طرح مجروح ہو چکی ہے اور اب وہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے ثالث کا کردار ادا کرنے کے بھی قابل نظر نہیں آتے۔ ٹرمپ نے جس بین الاقوامی لاقانونیت کو فروغ دیا ہے وہ بھارت کی حوصلہ افزائی کا باعث بنے گی۔ پاکستان نے اس خطے کو ایک نئی جنگ سے بھی بچانا ہے اور بھارتی سازشوں کا مقابلہ بھی کرنا ہے ۔ سادہ سی بات ہے کہ نیتن یاہو کا دوست اور اتحادی پاکستان کا دوست نہیں ہو سکتا۔ ایسے میں پاکستان کو ہر اگلا قدم سوچ سمجھ کر اٹھانا ہوگا۔