کیا ہر پاکستانی قومی و صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑ سکتا ہے؟

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے انتخابی شیڈول جاری کرنے کے بعد اُمیدواروں کی جانب سے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔کاغذات نامزدگی کی وصولی، اعتراضات اور اُمیدواروں کے انٹرویوز کے بعد الیکشن کمیشن 11 جنوری کو اُمیدواروں کی حتمی فہرست جاری کرے گا۔

تاہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں قومی یا صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑنے کی اہلیت کیا ہے؟ اور اُمیدوار کو انتخابی عمل میں کن کن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔

قانونی ماہرین کے مطابق انتخابی عمل کے پہلے مرحلے میں الیکشن کمیشن آف پاکستان اُمیدواروں کو کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے لیے کچھ روز کا وقت دیتا ہے جس کے بعد اُمیدواروں کی ابتدائی فہرست جاری کی جاتی ہے۔کاغذاتِ نامزدگی میں اُمیدواروں کے کوائف، تعلیمی اسناد، شناختی کارڈ کی نقل، مکمل پتہ، جائیداد کی تفصیلات، اثاثہ جات، این ٹی این نمبر سمیت دیگر تفصیلات منسلک کرتے ہیں۔

کاغذاتِ نامزدگی کے لیے اُمیدوار کو تجویز کنندہ اور تائید کنندہ بھی درکار ہوتے ہیں۔ یہ اُمیدوار کے حلقے کے ووٹرز ہوتے ہیں۔سن 2024 کے انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن نے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانے کی فیس 30 ہزار جبکہ صوبائی اسمبلی کی 20 ہزار مقرر کی ہے۔

اس کے بعد اُمیدواروں کی اسکروٹنی کا عمل شروع ہوتا ہے جس کی ذمے داری ہر حلقے کے مقرر کردہ ریٹرننگ آفیسر کی ہوتی ہے۔ریٹرننگ آفیسر الیکشن کمیشن کے قوانین کے مطابق اُمیدواروں کی جانچ پڑتال کرتا ہے۔ اسکروٹنی کے دوران یہ دیکھا جاتا ہے کہ اُمیدوار سزا یافتہ، بینک ڈیفالٹر تو نہیں ہے۔

ریٹرننگ آفیسر کے پاس یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ اسکروٹنی کے دوران اسٹیٹ بینک آف پاکستان، فیڈرل بورڈ آف ریونیو یعنی ایف بی آر قومی احتساب بیورو یعنی نیب، وفاقی تفتیشی ادارے یعنی ایف آئی اے سمیت دیگر سرکاری اداروں سے معلومات منگوا سکتا ہے۔اسکروٹنی کے دوران ریٹرننگ آفیسر اُمیدوار کو بلاتا ہے اور کاغذاتِ نامزدگی سے متعلق سوالات پوچھتا ہے، اس دوران کاغذات پر اعتراض لگانے والے فرد کو بھی بلایا جاتا ہے۔آر او اُمیدوار کی جانب سے کاغذاتِ نامزدگی میں فراہم کردہ کوائف کی تصدیق کے لیے نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) سے بھی مدد لے سکتا ہے۔

اگر ریٹرننگ آفیسر کسی بھی وجہ سے اُمیدوار کے کاغذات مسترد کر دیتا ہے تو پھر اُمیدوار کو آر او کے فیصلے کے خلاف اپیل کا حق دیا جاتا ہے۔ اسی طرح اگر مذکورہ حلقے کا کوئی ووٹر اُمیدوار کے کاغذات نامزدگی منظور ہونے پر کوئی اعتراض اُٹھاتا ہے تو یہ معاملہ ایپلٹ ٹریبونل کے پاس جاتا ہے۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان صوبے کی ہائی کورٹ سے کاغذات نامزدگی پر اپیل دائر کرنے اور فیصلوں کے لیے ایپلٹ ٹریبونل قائم کرنے کی درخواست کرتا ہے۔ ہائی کورٹ کا چیف جسٹس ایپلٹ ٹریبونل کے لیے ایک جج مقرر کرتا ہے جو متعین کردہ مدت میں اپیلیں نمٹاتا ہے۔

ایپلٹ ٹریبونل کے فیصلوں کے بعد الیکشن کمیشن اُمیدواروں کی نظرِ ثانی شدہ فہرست جاری کرتا ہے جس کے بعد اُمیدواروں کو الیکشن سے دست بردار ہونے کے لیے کچھ وقت دیا جاتا ہے جس کے بعد اُمیدواروں کی حتمی فہرست جاری کر دی جاتی ہے۔

یہ مراحل مکمل ہونے کے بعد الیکشن کمیشن اُمیدوار کو انتخابی نشان الاٹ کرتا ہے۔

تاہم ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں کون الیکشن لڑ سکتا ہے؟ انتخابی عمل میں حصہ لینے کی بنیادی شرائط کیا ہیں؟پاکستان کا ہر مسلمان شہری مرد/خواتین جن کی عمر 25 سال ہو اور دہری شہریت کا حامل نہ ہو، الیکشن میں حصہ لے سکتا ہے۔سزا یافتہ اور پبلک آفس ہولڈر انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتا۔ ایسے ریٹائر پبلک آفس ہولڈر جن کی ریٹائرمنٹ کو دو سال کا عرصہ گزر گیا وہ بھی الیکشن میں حصہ لے سکتے ہیں۔

قومی اسمبلی کا الیکشن پاکستان کا ہر شہری کسی بھی جگہ سے لڑ سکتا ہے جبکہ صوبائی اسمبلی کا الیکشن متعلقہ صوبے سے تعلق رکھنے والا

یوتھیوں نے الیکشن میں عمران کو ہی ٹھوکنے کا پلان بنا لیا؟

اُمیدوار ہی لڑ سکتا ہے۔

Back to top button