وزیر اعظم بالآخر عثمان بزدار کو ہٹانے پر آمادہ ہو گئے

تحریک انصاف میں جہانگیر ترین اور علیم خان کی کھلی بغاوت کے بعد اب وزیراعظم عمران خان اپنے وسیم اکرم پلس یعنی وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کو ہٹا کر اپنی حکومت بچانے پر آمادہ ہوتے نظر آ رہے ہیں کیونکہ اگر ان کے باغیوں نے اپوزیشن سے ہاتھ ملا لیا تو مرکز میں عمران حکومت بھی ختم ہو جائے گی۔

حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نے پارٹی میں بغاوت کی آگ پھیلنے سے روکنے کے لیے وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کو ہٹانے پر آمادگی ظاہر کر دی ہے اور علیم خان گروپ کو وزارت اعلی آفر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ وفاقی کابینہ کے پانچ اہم وزراء نے عمران خان کو یہ مشورہ دیا تھا کہ اگر مرکزی حکومت بچانی ہے تو بزدار کی قربانی دینا ہوگی۔ ذرائع کے مطابق عمران خان کے قریبی ساتھی اسد عمر کے علاوہ وفاقی وزیر فواد چوہدری اور گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور نے بھی وزیر اعظم کو مرکزی اور پنجاب حکومتیں بچانے کے لئے وزیر اعلی پنجاب کی تبدیلی کا مشورہ دیا تھا جس کے بعد گورنر سندھ عمران اسماعیل اور فواد چوہدری کو علیم خان سے دوبارہ ملاقات کی ہدایت کی گئی۔

چنانچہ 8 مارچ کو فواد اور عمران اسماعیل نے علیم خان سے لاہور میں تفصیلی ملاقات کی اور انہیں وزارت اعلیٰ کی پیشکش کردی۔ تاہم علیم خان نے دونوں کے ساتھ میڈیا کے سامنے گفتگو سے انکار کر دیا اور واضح کیا کہ وہ کوئی بھی فیصلہ جہانگیرترین سے مشورے کے بغیر نہیں کریں گے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ علیم خان اگلے 24 گھنٹے میں ترین سے ملاقات کے لیے لندن روانہ ہو جائیں گے جس کے بعد حتمی فیصلہ کرلیا جائے گا۔

عمران کے سابقہ دوست عون چوہدری کے مطابق جہانگیر ترین اور اسحاق خاکوانی اہم سیاسی صلاح مشورے کے لیے ترین سے ملاقات کیلئے جلد لندن روانہ ہونے والے ہیں۔ لیکن پی ٹی آئی کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ شاید عمران خان نے بزدار کو ہٹانے پر آمادگی ظاہر کرنے میں بہت دیر کردی کیونکہ اب یہ امکان پیدا ہوچکا ہے کہ شاید جہانگیرترین گروپ اپوزیشن کی حمایت سے بزدار کو اکیلے ہی ہٹا دے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر مرکزمیں ترین گروپ کے ممبران قومی اسمبلی بھی عمران خان کے خلاف کھڑے ہو جائیں گے اور ان کے بچنے کا امکان ختم ہو جائے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جہانگیر ترین کا عمران سے دوبارہ ہاتھ ملا نے کا امکان معدوم ہے کیونکہ وزیراعظم ان کے خلاف کاروائی کرتے ہوئے اتنی دور چلے گئے تھے کہ اب واپسی ناممکن ہے۔ دوسری جانب نواز لیگ کی قیادت جہانگیر ترین کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہے اور شہباز شریف نے ترین کو لندن میں صحت یابی کی دعا کرتے ہوئے پھول بھی بھجوائے ہیں۔

یاد رہے کہ 7 مارچ کے روز جہانگیر ترین کی رہائش گاہ پر ان کے گروپ کا حصہ بننے کا اعلان کرتے ہوئے علیم خان نے وزیر اعظم کو بھی چارج شیٹ کر دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے عمران خان سے بہتری کی امید لگائی تھی لیکن انہوں نے بری طرح مایوس کیا۔ عبدالعلیم خان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے لیے ترین کی خدمات ناقابک فراموش تھیں لیکن تحریک انصاف کی حکومت آنے کے بعد عمران خان نے انہیں بری طرح نظرانداز کیا۔

علیم کا کہنا تھا کہ میں اب تک 40 ارکان صوبائی اسمبلی سے ملا ہوں اور ان سب کو پنجاب میں طرزِ حکمرانی پر تشویش ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’عدم اعتماد کی تحریک آتی ہے تو ہم سب مل کر فیصلہ کریں گے کہ کس ساتھ دینا ہے۔‘ عبدالعلیم خان نے یہ بھی کہا کہ تحریک انصاف کسی فردِ واحد کی نہیں بلکہ ہماری جماعت یے۔ خیال رہے کہ 2018 کے الیکشن کے بعد علیم خان پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے سب سے تگڑے امیدوار تھے اور انہیں ترین کی حمایت بھی حاصل تھی لیکن عمران نے اپنے وعدے سے پھرتے ہوئے بزدار کو وزیر اعلی بنا دیا۔

دوسری جانب وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے لیے اپوزیشن جماعتیں متحرک ہیں اور جہانگیر ترین کی تازہ ترین موو کے نتائج کا انتظار کر رہی ہیں، ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر اپوزیشن اور ترین گروپ میں اتفاق رائے ہو گیا تو پھر سب سے پہلے وزیر اعلی پنجاب کو تبدیل کیا جائے گا اور دوسرے مرحلے میں عمران خان کی چھٹی کروائی جائے گی۔

اپوزیشن کوعدم اعتماد کی کامیابی کیلیے10 ارکان درکار

اس سیاسی ہلچل کے دوران حکومت کی اتحادی جماعت مسلم لیگ ق کے چوہدری پرویز الہیٰ سے کچھ صوبائی وزرا نے ملاقات کی جس کے دوران سپیکر نے عمران خان کو بڑے سیاسی فیصلے لینے کا مشورہ دیا لیکن سیاسی تجزیہ کاروں کے خیال میں ایک بات طے ہے کہ اب پرویز الہی کے وزیراعلی پنجاب بننے کا چانس مکمل طور پر ختم ہو گیا ہے۔ ترین گروپ نے بھی واضح کر دیا ہے کہ ان کے قاف لیگ کے ساتھ کوئی رابطے نہیں اور پرویز الہی کسی صورت وزارت اعلی کے امیدوار نہیں ہو سکتے۔

PM finally agreed to remove Usman Bazdar Latest news in Urdu

Back to top button