کیا سیاسی جماعتیں اب انتخابی معرکہ سوشل میڈیا پر لڑینگی؟

پاکستان میں سنہ 2018 کے الیکشن کے بعد انتخابی مہم سوشل میڈیا کا کردار کھل کر سامنے آیا ہے۔ سیاسی جماعتیں اب روایتی جلسوں کی بجائے سوشل میڈیا پر باہم صف آراء ہوتی نظر آتی ہیں۔ سوشل میڈیا اب عام آدمی تک رسائی کے لیے ہر سیاسی جماعت کی ضرورت بن چکا ہے اور انہوں نے اس کام کے لیے سوشل میڈیا مینیجرز کی خدمات حاصل کی ہوئی ہیں جو ہر طبقے کی سوچ کو مدنظر رکھتے ہوئے پارٹی پیغامات ترتیب دیتے ہیں اور پھر انہیں اس طرح سے شیئر کرتے ہیں کہ نہ صرف عوام ان کو دیکھ کر متاثر ہو بلکہ پارٹی کا حصہ بھی بنے۔

عموماً سوشل میڈیا مہم کا مقصد پارٹی کے سیاسی بیانیے کو عوام میں مقبول کرنا ہوتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ صارفین پارٹی کے متعلق خبروں کو جانیں اور ان پر تبصرے کریں جس سے پارٹی کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہو۔انتخابات میں تقریباً ڈیڑھ مہنہ رہ گیا ہے اور تمام سیاسی جماعتیں الیکشن مہم میں مصروف ہیں۔ آج کے سوشل میڈیا دور میں الیکشن مہم کے روایتی طریقوں سے کہیں زیادہ سوشل میڈیا پر مہم چلانے کو ترجیح دی جارہی ہے

پیپلز پارٹی کی سوشل میڈیا کور ٹیم کی ممبر ملیحہ منظور کے مطابق پارٹی کا سوشل میڈیا گزشتہ ایک سال میں کافی زیادہ مضبوط ہوا ہے اور انتخابی مہم کے لیے ہم آج تک جو بھی عوام کی فلاح کے لیے کام کر چکے ہیں انہیں ان تمام پراجیکٹس سے آگاہ کریں گے اور انہیں مستقبل کے حوالے سے یقین دلائیں گے کہ انہی کامیاب منصوبوں کی طرح پیپلز پارٹی اقتدار میں آکر مزید کامیاب منصوبوں پر کام کرے گی۔محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی برسی والے دن 27 دسمبر کو سوشل میڈیا انتخابی مہم کا با قاعدہ آغاز کیا جائے گا۔ پی پی پی کی انتخابی مہم فیلڈ لیول پر بھی شروع ہو جائے گی جس کا آغاز چیئرمین پیپلز پارٹی کے جلسے سے ہوگا۔ایک سوال کے جواب میں ملیحہ منظور کا کہنا تھا کہ آج کے جدید ٹیکنالوجی سے بھرپور دور کے لیے سوشل میڈیا پر انتخابی مہم چلانا بے حد ضروری ہو چکا ہے کیونکہ آدھے سے زیادہ ووٹرز سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں۔

دوسری جانب مسلم لیگ ن کی سوشل میڈیا ٹیم کی سربراہی کرنے والے عاطف رانا نے انتخابی مہم کے حوالے سے بتایا کہ ن لیگ کی سوشل میڈیا پر انتخابی مہم میں ماضی میں لائے گے بڑے اور کامیاب منصوبوں کا تذکرہ خاصی اہمیت کا حامل ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اس سے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو آگاہ ہونا چاہیے کہ ن لیگ صرف باتیں نہیں بناتی ہے بلکہ عمل بھی کرتی ہے اور اس کا ارادہ مستقبل میں بھی عوام کی سہولیات کے لیے بڑے منصوبے لے کر آنا ہے۔انہوں نے کہا کہ سنہ 2018 میں سابق وزیراعظم نواز شریف اور مریم نواز دونوں کو جیل میں رکھا گیا اور ہم سے انتخابی نشان بھی لے لیا گیا اور اس کے علاوہ ہمیں لیول پلیئنگ فیلڈ بھی نہیں ملی لیکن اس کے باوجود ہم نے بہت دلیری سے مقابلہ کیا تھا۔

عاطف رانا نے کہا کہ ن لیگ کے سوشل میڈیا فالوورز پارٹی کے پکے سپورٹرز ہیں اور وہ ہر حال میں ن لیگ کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں جبکہ پی ٹی آئی جھوٹے اعدادوشمار اور آرٹیفیشل طریقے اپنا کر عوام میں مقبولیت کا دعویٰ کرتی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ 13 جنوری سے ن لیگ کی دھماکے دار سوشل میڈیا مہم شروع کی جائے گی اور سوشل میڈیا پر لوگوں کے ساتھ انٹریکٹ کیا جائے گا۔ان کا کہنا تھا کہ سنہ 2024 کی انتخابی مہم میں سب سے مختلف چیز منشور ہے، ن لیگ اس بار آن ’لائن منشور پورٹل‘ لانچ کر رہی ہے جس میں ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد سے تجاویز لی جائیں گی کہ پارٹی کو کیا کرنا چاہیے اور کیا نیا لانا چاہیےان کا کہنا تھا کہ اس بار ہماری سوشل میڈیا مہم نہ صرف کامیاب رہے گی بلکہ سنہ 2024 کے الیکشن میں ایک بڑا کردار ادا کرے گی۔

دوسری جانب پی ٹی آئی یوٹیوب کے ہیڈ علی ملک نے پارٹی کی انتخابی مہم کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی نے ہمیشہ سرپرائز دیا ہے اور انتخابی مہم میں کچھ سرپرائز دے چکے ہیں اور کچھ سرپرائز ابھی باقی ہے۔علی ملک نے کہا کہ ان کی سوشل میڈیا پر انتخابی مہم 9 اپریل سے جاری ہے جس کا باقائدہ آغاز 10 اپریل 2022 کو عوام نے سڑکوں پر نکل کر کر دیا تھا۔انہوں نے کہا کہ ہمارا نعرہ بھی یہی ہے کہ ’ظلم کے بدلے ووٹ‘ جبکہ انتخابی مہم ’نظام بدلو، پاکستان بدلو‘ جملے پر ہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ انتخابی مہم کا پہلا فیز گزر چکا ہے جس میں عمران خان کا ورچوئل جلسہ بھی شامل ہے اور اس طرح کے کچھ مزید سرپرائزآگے بھی آئیں گے‘۔علی ملک نے کہا کہ صرف یہی گزارش ہے کہ کاغذات نامزدگی جمع کروانے دیے جائیں، بیشک جلسے نہ کرنے دیں، لیڈران کو جیلوں میں رکھیں لیکن بس الیکشن تک

کیا نوازشریف چوتھی بار وزیراعظم بن پائیں گے؟

رسائی دے دی جائے تو ہم انہیں جیت کر دکھائیں گے۔

Back to top button