1996 میں صدر لغاری نے اپنی محسن بی بی شہید کی حکومت کیسے توڑی؟

یہ بھی پاکستانی سیاسی تاریخ کا ایک عجیب و غریب واقعہ ہے کہ 5 نومبر 1996 کو جب صدر فاروق احمد خان لغاری نے وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی حکومت کو برطرف کیا تو اس صبح کے اخبارات میں انکے گھر بھیجے جانے کی خبر چھپ چکی تھی جس میں بتا دیا گیا تھا آج لغاری آٹھویں آئینی ترمیم کے تحت اپنا صدارتی اختیار استعمال کرتے ہوئے حکومت کو فارغ کر دیں گے۔ کہا جاتا ہے کہ حکومت کی برطرفی کی خبر چھپوانے کے بعد اسے توڑنے اور گھر بھجوانے کا اصل مقصد اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے اپنی بھرپور طاقت اور اعتماد کا اظہار کرنا تھا۔
نومبر 1996 میں بے نظیر بھٹو کی دوسری مدت کی حکومت کے خاتمے کے حوالے سے سینیئر صحافی حامد میر کا بیان کردہ واقعہ معروف صحافی سہیل وڑائچ کی بے نظیر بھٹو کے بارے میں کتاب ’قاتل کون؟‘ میں نقل کیا گیا ہے۔ حامد میر کہتے ہیں کہ بینظیر بھٹو کی حکومت کے خاتمے سے دو دن پہلے میں اور ڈان کے ایڈیٹر ضیاء الدین بےنظیر بھٹو شہید سے وزیر اعظم ہاؤس میں ملے، رات کافی ہوچکی تھی۔ ضیاء الدین نے بی بی سے کہا کہ اس نوجوان کے پاس ایک خبر ہے۔ بی بی نے مجھ سے پوچھا کیا خبر ہے؟ میں نے کہا کہ فاروق لغاری آپ کی حکومت ختم کرنے والے ہیں۔ میری بات سن کر بی بی بولیں کہ فاروق بھائی ایسا نہیں کر سکتے، اس پر میں نے کہا کہ یہ درست ہے کہ بلوچ کبھی اپنی بہن کو دھوکہ نہیں دیتے لیکن لغاری اپنی بہن کو دھوکہ دینے کا فیصلہ کر چکا ہے۔ اگلی حکومت کے وزیراعظم کا بھی فیصلہ ہو چکا ہے۔ یوں 5 نومبر کے روز بے نظیر بھٹو کی حکومت ختم کر دی گئی۔ یاد رہے کہ حکومت توڑنے کا اختیار جنرل ضیاء الحق نے آئین میں آٹھویں ترمیم کے ذریعے حاصل کیا تھا جسے بعد میں فوجی اسٹیبلشمنٹ منتخب حکومتوں کو بے دخل کرنے کیلئے بذریعہ صدر استعمال کرتی رہی۔ لیکن پانچ نومبر 1996 کو بی بی حکومت توڑے جانے کا حادثہ دوسری بار پیش آیا۔ اس بار فرق یہ تھا کہ یہ کام ایک گھر والے یعنی پیپلز پارٹی کے اپنے سردار فاروق لغاری نے انجام دیا جن کے بارے میں تب یہ مشہور تھا کے ان کے آصف زرداری سے تعلقات بہت زیادہ خراب ہیں۔
خیال رہے کہ بے نظیر حکومت کے خاتمے کے بعد نوازشریف برسر اقتدار آئے جنہوں نے فاروق لغاری کو مکافات عمل کے اصول کے تحت کان سے پکڑ کر ایوان صدارت سے نکال باہر کیا۔ لیکن بعد ازاں نواز شریف 1999 میں جنرل مشرف کے ہاتھ اقتدار سے بے دخل ہو گئے۔ یہ بھی ایک دلچسپ بات ہے کہ 5 نومبر 1996 کے روز جب بے نظیر بھٹو کی حکومت توڑی گئی تو امریکہ میں صدارتی انتخابات کے لیے ووٹ ڈالے جارہے تھے۔ ایسے میں علی الصباح بے نظیر بھٹو کی ایوان اقتدار سے رخصتی کی خبر نے ہلچل مچادی ۔ صدر لغاری کی جانب سے اس دن کے انتخاب میں شاید یہ عنصر بھی کارفرما تھا کہ دنیا بھر کے جمہوری اور ابلاغی اداروں کی نظریں امریکی انتخابات کے نتائج پر لگی ہوئی تھیں۔ پاکستان میں کئی ماہ سے پیش آنے والے واقعات سے سیاسی حالات کے نبض شناس تجزیہ کاروں کو کسی ڈرامائی تبدیلی کے آثار نمایاں ہوتے محسوس ہو رہے تھے مگر عوام کی غالب اکثریت کے لیے اسمبلیوں کی رخصتی کی خبر دھماکے سے کم نہ تھی۔ اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ چھ برس میں یہ تیسری حکومت تھی جو آئین کی دفعہ 58 ٹو بی کا نشانہ بنی تھی۔ اس فیصلے میں حیرت کا پہلو صدر فاروق لغاری کے ہاتھوں اپنی پارٹی اور قائد کی حکومت کا خاتمہ تھا۔
جنوبی پنجاب میں ڈیرہ غازی خان کے علاقے چوٹی زیریں کے سابق بیوروکریٹ اور بے نظیر بھٹو کے قابل بھروسہ بھائیوں جیسے ساتھی فاروق لغاری کو ایوان صدر میں پہنچانے کے لیے بے نظیر اپنے سیاسی مخالف غلام اسحاق خان کے گھر خود چل کر گئی تھیں۔ یاد رہے کہ 1993 کے صدارتی انتخابات میں مسلم لیگ ن کے وسیم سجاد کے علاوہ سابق صدر غلام اسحاق خان بھی آزادانہ حیثیت میں صدارتی امیدوار تھے۔ وزارت خزانہ کے متمنی فاروق لغاری کو پیپلز پارٹی نے اپنا صدارتی امیدوار نامزد کیا۔ غلام اسحاق خان کی مقابلے میں موجودگی سے بے نظیر بھٹو کو فاروق لغاری کی پوزیشن وسیم سجاد کے مقابلے میں کمزور لگی تو وہ سابق صدر کے ہاں پہنچ گئیں اور انہیں دستبرداری پر راضی کر لیا۔ یوں فاروق لغاری آسانی سے ایوان صدر کے مکین بن گے۔ اس کے بعد بی بی نے حکومت توڑنے اور اسمبلی کی تحلیل کے صدارتی اختیار ختم کرنے کی کوشش کی۔ وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے لیے ماضی کی نسبت اس بار سیاسی حالات سازگار اور متوقع مخالفتوں کے امکانات کم تھے۔ ان کے سب سے بڑے سیاسی حریف نواز شریف پنجاب میں حکومت بنانے سے محروم ہو چکے تھے۔ صوبہ سرحد یعنی موجودہ خیبر پختونخوا میں معمولی اکثریت سے ان کی جماعت اتحادی حکومت بنا پائی۔ گزشتہ دو انتخابات میں پیپلز پارٹی کے مقابل رہنے والی آئی جے آئی کے بکھرنے سے بے نظیر بھٹو کو مضبوط اور متحرک اپوزیشن کا سامنا بھی نہ تھا۔سب سے بڑھ کر آرمی چیف عبدالوحید کاکڑ کے ساتھ گزشتہ حکومت میں سر اٹھانے والے سیاسی بحران کے حل کے دوران اعتبار اور تعاون کا تعلق استوار ہو چکا تھا۔ ماضی میں طاقت کے دوسرے بڑے ستون عدلیہ سے شاکی رہنے والی بے نظیر بھٹو کے لیے اقتدار کے پہلے سال ہی اپنی مرضی کا چیف جسٹس لگانے کے امکانات پیدا ہوگئے۔ یوں 5 جون 1994 کو دو سینیئر ججز پر سجاد علی شاہ کو ترجیح دے کر چیف جسٹس بنا دیا گیا۔
تاہم پیپلز پارٹی کی حکومت کا ایک سال بھی پورا نہ ہوا تھا کہ اپوزیشن لیڈر نواز شریف نے اسکے خلاف تحریک نجات کا آغاز کردیا۔ اس دوران پورے ملک میں حکومت مخالف ریلیاں اور کراچی سے پشاور تک ٹرین مارچ کیا گیا۔ اس قبل از وقت احتجاج کی وجہ صوبہ سرحد کے وزیر اعلٰی پیر صابر شاہ کی حکومت کا خاتمہ تھا۔ نئی وفاقی حکومت نے چار ماہ بعد ہی صوبہ سرحد میں آرٹیکل 234 کے تحت گورنر راج لگا کر مسلم لیگ ن اور اے این پی کی مخلوط حکومت کو معطل کردیا۔ صوبائی اسمبلی میں ہنگامہ خیز واقعات اور ہارس ٹریڈنگ کے بدترین الزامات کی بوچھاڑ کے دوران آفتاب احمد خان شیرپاؤ پیپلز پارٹی کے وزیراعلی بن گئے۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں بھی ایک برس بعد ایسی ہی صورت حال پیدا ہوگئی جہاں پیپلز پارٹی کی مسلم لیگ جونیجو کے ساتھ اتحادی حکومت قائم تھی۔ 1995 میں وزیراعلٰی منظور وٹو کے انتظامی اور سیاسی فیصلوں سے نالاں وفاقی حکومت نے یہاں بھی آرٹیکل 234 کے تحت صوبائی حکومت معطل کرکے گورنر راج نافذ کردیا۔ اس دوران جوڑ توڑ سے سردار عارف نکئی کو وزیراعلٰی بنایا گیا اور منظور وٹو نے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔ ایک سال بعد عدالت نے ان کی حکومت بحال کردی۔ وفاق نے سپریم کورٹ میں اپیل کی مگر اسی دوران ہی قومی اسمبلی کی تحلیل کی وجہ سے صوبائی اسمبلی بھی کچھ دنوں میں توڑ دی گئی۔ اس دوران آرمی چیف عبدالوحید کاکڑ کی 1995 کے اواخر میں ریٹائرمنٹ کے بعد جنرل جہانگیر کرامت فوج کے نئے سربراہ بنے۔
سہیل وڑائچ اپنی کتاب میں بے نظیر بھٹو سے اپنی ملاقاتوں کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ اس دوران بےنظیر بھٹو نے انہیں بتایا کہ جہانگیر کرامت پیشہ ور سپاہی تھے جن سے مجھے کوئی گلہ نہیں۔ انہوں نے اپنی ڈیوٹی کے مطابق مجھے بتایا کہ صدر فاروق لغاری مجھ سے خوش نہیں ہیں لیکن میں جب فاروق لغاری سے ملی انہوں نے اس بات کا احساس تک نہیں ہونے دیا۔ تاہم صدر فاروق لغاری کے بدلتے تیور اور ارادے بے نظیر بھٹو کے لیے خوش کن نہ تھے۔ اسی دوران مارچ 1996 میں سپریم کورٹ کے ججز کیس کے فیصلے نے ان کی سیاسی اور انتظامی مشکلات بڑھا دیں۔ اب ایوان صدر کے ساتھ ساتھ ایوانِ عدل کے سربراہ کے ساتھ بھی ان کی چپقلش کا آغاز ہوگیا تھا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت پر سب سے زیادہ تنقید عدلیہ میں کی گئی تقرریوں میں اقربا پروری اور میرٹ کی پامالی پر ہوئی۔ سب سے پہلے سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس ناصر اسلم زاہد کو انتقامی طور پر وفاقی شرعی عدالت بھیج دیا گیا۔ ساتھ ہی سندھ اور لاہور ہائی کورٹ میں قائم مقام چیف جسٹس تعینات کر کے ججوں کی خالی اسامیوں پر اپنے من پسند لوگوں کو لگا دیا گیا۔لاہور ہائی کورٹ میں 20 ججز کی تعیناتی میں بمشکل 10 لوگ میرٹ پر پورا اترنے والے تھے۔مختلف عدالتوں میں ججز کی تعیناتی کو وہاب الخیری ایڈووکیٹ نے سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا جس کے نتیجے میں مشہور زمانہ ججز کیس کے فیصلے میں اہلیت پر پورا نہ اترنے والے بہت سارے افراد کو فارغ کردیا گیا۔ اس فیصلے نے بھی ایوان صدر اور حکومت میں فاصلے بڑھا دیے۔ اسی دوران فاروق لغاری نے سپریم کورٹ سے ریفرنس کے ذریعے رائے مانگی جس میں ججوں کی تقرری میں صدر کے اختیار کی وضاحت اور تشریح کا کہا گیا تھا۔ بہرحال طاقت کے تمام مراکز کے ساتھ تعلقات میں کھچاؤ نے حکومت کو کمزور کردیا مگر 20 ستمبر 1996 کو وزیراعظم کے بھائی میر مرتضیٰ بھٹو کے قتل نے ایک طرف حکومت کو لرزا دیا تو دوسری طرف وزیراعظم اور ان کے خاندان کو ذاتی صدمے اور جذباتی جھٹکے سے بھی دوچار کردیا۔سیاسی مشکلات میں گھری بے نظیر کے لیے بھائی کا قتل جذباتی طور پر دل دہلا دینے والا تو تھا ہی لیکن اس واقعے نے انہیں سیاسی اور انتظامی طور پر بھی مزید کمزور کردیا اور آخر کار پانچ نومبر کا سورج چڑھا جس نے بی بی کے اقتدار کا سورج غروب کردیا۔ فاروق لغاری نے کرپشن الزامات پر ٹھاون ٹو بی کے تحت بینظیر بھٹو کی حکومت ختم کردی اور اسمبلیاں تحلیل کردیں۔
پیپلز پارٹی کی حکومت کے خاتمے کے بعد ملک معراج خالد کی زیر قیادت 10 رکنی نگران کابینہ تشکیل دی گئی۔ 18 نومبر کو احتساب آرڈیننس کے ذریعے احتساب کمیشن قائم کیا گیا۔ بے نظیر بھٹو اور ان کے شوہر کے خلاف سوئس اکاؤنٹس اور سرے محل کی ملکیت کے بارے میں مقامی اور بین الاقوامی اخبارات میں خبروں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ فروری 1997 میں نئے انتخابات سے قبل ہی سپریم کورٹ نے صدارتی فرمان کو سند جوازعطا کردی۔ الیکشن میں پیپلز پارٹی بدترین شکست سے دوچار ہوئی جبکہ نواز شریف دو تہائی اکثریت کے ساتھ برسر اقتدار آگئے۔