پرویز الٰہی کی کرسی محسن نقوی کو ملنے کا امکان

پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ کی دوڑ میں شامل زیادہ تر امیدواروں کے ریس سے باہر ہو جانے کے بعد اب اس بات کا قوی امکان پیدا ہو گیا ہے کہ یہ عہدہ معروف صحافی اور چینل 24 کے مالک سید محسن نقوی کے پاس جانے والا ہے جسکا نام پی ڈی ایم نے تجویز کیا ہے۔ پنجاب کی نگران حکومت کی تشکیل کے لیے عمران خان اور وزیراعلیٰ پرویز الٰہی کی مشاورت سے جو تین نام دیئے گئے تھے ان میں احمد نواز سکھیرا، ناصر محمود کھوسہ اور نصیر خان شامل ہیں، اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز کی جانب سے نگران وزیراعلیٰ کے لیے جو دو نام سامنے آئے ان میں سابق بیوروکریٹ احد چیمہ اور ایک میڈیا ہائوس کے مالک سید محسن نقوی شامل ہیں۔ تاہم اب تک کی صورتحال کے مطابق تحریک انصاف کی جانب سے دیئے گئے تینوں نام دوڑ سے باہر ہوتے نظر آتے ہیں۔

تحریک انصاف کی جانب سے دیا گیا پہلا نام سابق بیوروکریٹ ناصر محمود کھوسہ کا تھا جو ماضی میں چیف سیکرٹری سندھ اور چیف سیکرٹری پنجاب بھی رہ چکے ہیں، 2018 کے انتخابات سے پہلے پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ کے لیے ان کا نام مسلم لیگ نون کی جانب سے تجویز کیا گیا تھا جبکہ تحریک انصاف کی جانب سے میاں محمود الرشید کا نام دیا گیا تھا، تاہم پی ٹی آئی نے ناصر محمود کھوسہ پر اعتراض کیا تھا کہ وہ شہباز شریف کے بہت قریب ہیں، اس لیے انکی جانب سے الیکشن سسٹم پر اثر انداز ہونے کا امکان ہے۔ اب حیران کن بات یہ ہے کہ وہی پی ٹی آئی جس نے ناصر محمود کھوسہ پر شہباز شریف سے قربت کا الزام لگایا تھا، اس نے پانچ برس بعد ناصر محمود کھوسہ کو خود نگران وزیراعلیٰ کیلئے نامزد کردیا۔ لیکن ناصر محمود کھوسہ نے اب خود ہی نگران وزیر اعلیٰ کا عہدہ قبول کرنے سے معذرت کر لی ہے۔

تحریک انصاف کی جانب سے دیا گیا دوسرا نام سردار احمد نواز سکھیرا کا ہے جو کہ اس وقت حاضر سروس بیورکریٹ ہیں، ان کا نام دیتے وقت پی ٹی آئی نے موقف اپنایا کہ سکھیرا چونکہ 31 جنوری تک عہدے سے ریٹائر ہو رہے ہیں، اس لیے وہ کسی بھی وقت ریٹائرمنٹ لے کر نگران وزیراعلیٰ بن سکتے ہیں۔ لیکن آئین میں واضح ہدایات موجود ہیں کہ کوئی بھی سرکاری ملازم ریٹائرمنٹ کے بعد دو سال تک کوئی بھی حکومتی عہدہ نہیں لے سکتا۔ یوں سکھیرا بھی نگران وزیر اعلیٰ کی دوڑ سے باہر ہو چکے ہیں۔پی ٹی آئی کی جانب سے دیا گیا تیسرا نام سابق وزیر صحت نصیر خان کا تھا۔ لیکن اب انکے بارے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ وہ دوہری شہریت کے حامل ہیں، اس لیے وہ بھی نگران وزیر اعلیٰ کی ریس سے باہر ہوتے نظر آتے ہیں، کیونکہ دوہری شہریت کے حوالے سے عدالتیں پہلے ہی کئی فیصلے دے چکی ہیں۔

دوسری جانب پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کی جانب سے تجویز کردہ ناموں میں پہلا نام احد چیمہ کا ہے جوکہ شہباز شریف کی وزارت اعلیٰ کے دوران بہت مضبوط بیوروکریٹ تھے، وہ شہباز دور حکومت میں ڈی جی ایل ڈی اے بھی رہے، لیکن شہباز حکومت ختم ہونے کے بعد نیب نے ان کے خلاف کئی کرپشن کیسز بنا دیے، اور احد چیمہ کو لمبی جیل بھی کاٹنا پڑی، اسی صورتحال سے دلبرداشتہ ہو کر انھوں نے رہائی کے فوری بعد سول سروس کو خیرآباد کہہ دیا، لیکن شہباز شریف نے ان کو اب بھی اپنے ساتھ وفاقی حکومت میں رکھا ہوا ہے، وزیراعظم ہائوس میں وہ شہباز شریف کے تمام معاملات کو دیکھتے ہیں۔ احد چیمہ کا بھی مسئلہ یہ ہے کہ انہیں سرکاری نوکری چھوڑے ابھی دو برس نہیں ہوئے لہذا وہ نگران وزیراعلیٰ کے عہدے کے اہل دکھائی نہیں دیتے۔

ایسے میں پیچھے صرف ایک نام باقی بچتا ہے جو سٹی 42 اور چینل 24 کے مالک محسن نقوی کا ہے، سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق اس بات کا قوی امکان ہے کہ جب یہ تمام نام چیف الیکشن کمشنر کے پاس جائیں گے تو قرعہ فال محسن نقوی کے نام ہی نکلے گا کیونکہ وہ نگران وزیراعلیٰ کی اہلیت پر پورے اترتے دکھائی دیتے ہیں۔ محسن نقوی کے بارے میں عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ایک بااثر شخصیت ہیں، جن کا نہ صرف آصف زرداری اور شریف برادران سے ذاتی تعلق ہے بلکہ وہ مولانا فضل الرحمن کے بھی قریب سمجھے جاتے ہیں۔ محسن نقوی نے اپنے صحافتی کیرئیر کا آغاز امریکہ میں سی این این کیساتھ بطور پروڈیوسر وابستہ ہوکر کیا تھا اور بعد میں سٹی 42 اور چینل 24 شروع کر دیے۔ عمران خان کے دور حکومت میں ان کے ٹی وی چینلز کو کئی مرتبہ بند کیا گیا اور انہیں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس وقت نگران وزیر اعلیٰ کے چناؤ کے لیے کھیل آخری مرحلے میں داخل ہوچکا ہے اور حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے تین تین اراکین اسمبلی پر مشتمل پارلیمانی کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔ تاہم اس بات کا قوی امکان ہے کہ پارلیمانی کمیٹی کسی مشترکہ امیدوار کے نام پر متفق نہیں ہو پائے گی جس کے بعد نگران وزیر اعلیٰ کا حتمی فیصلہ الیکشن کمیشن کرےگا۔

Back to top button