اسرائیل نے ایرانی سپریم لیڈر پر حملہ کیا تو پھر کیا ہوگا ؟

ایران پر اسرائیلی حملوں کے بعد اب امریکی صدر ٹرمپ بھی کھل کر وزیراعظم نیتن یاہو کے ساتھ کھڑے ہو گئے ہیں اور ایرانی سپریم لیڈر خامنہ ای کو نشانہ بنانے کا اعلان کر دیا ہے۔ ایک طرف اسرائیلی وزیر اعظم نے خامنہ ای کو نشانہ بنانے کی بات کی ہے تو دوسری جانب امریکی صدر نے بھی ایرانی سپریم لیڈر کو آسان ہدف قرار دے دیا ہے اور کہا ہے کہ ہم جانتے ہیں وہ کہاں چھپے ہوئے ہیں۔ تاہم تہران نے ایسی کسی بھی کوشش پر اسرائیل کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی دی ہے۔
بی بی سی اردو کی ایک رپورٹ کے مطابق آیت اللہ علی خامنہ ای 1979 کے انقلاب کے بعد ایران کے رہبرِ اعلیٰ بننے والے دوسرے شخص ہیں۔ وہ 1989 سے اس عہدے پر فائز ہیں۔ ریاست کے سربراہ اور فوج کے کمانڈر ان چیف ہونے کے ناطے، وہ ایران کے سب کے طاقتور شخص کے طور پر جانے جاتے ہیں۔خامنہ ای ایرانی ریاست کے طاقت کے مراکز میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔ بطور رہبرِ اعلیٰ، خامنہ ای کو کسی بھی حکومتی معاملے میں ویٹو کی طاقت حاصل ہے۔ اس کے علاوہ ان کے پاس یہ اختیار بھی ہے کہ وہ جس کو چاہیں، کسی بھی عوامی دفتر کے امیدوار کے طور پر چن سکتے ہیں۔
آیت اللہ خامنہ ای 1939 میں ایران کے دوسرے سب سے بڑے شہر مشہد کے ایک مذہبی خاندان میں پیدا ہوئے۔ وہ اپنے بھائی بہنوں میں دوسرے نمبر پر ہیں اور ان کے والد ایک درمیانے درجے کے شیعہ عالم تھے۔انھوں نے بچپن میں مذہبی تعلیم حاصل کی اور 11 برس کی عمر میں وہ ایک عالم کے طور پر اہل ہو گئے تھے۔اپنے دور کے دیگر عالموں کی طرح، ان کے کام کی نوعیت مذہبی ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی بھی تھی۔بطور ایک بااثر خطیب، وہ شاہِ ایران کے نقادوں میں شامل ہو گئے۔ بالآخر 1979 کے اسلامی انقلاب کے نتیجے میں ایران کے شاہ کا تختہ الٹ دیا گیا۔خامنہ ای کئی برسوں تک روپوش رہے اور انھیں جیل بھی کاٹنی پڑی۔ شاہِ ایران کی خفیہ پولیس نے انھیں چھ مرتبہ گرفتار کیا اور انھیں تشدد کا بھی سامنا کرنا پڑا۔
1979 کے انقلاب کے ایک سال بعد، آیت اللہ روح اللہ خمینی نے انھیں تہران میں جمعے کی نماز کا امام مقرر کر دیا۔1981 میں خامنہ ای صدر منتخب ہوئے جبکہ 1989 روح اللہ خمینی کی وفات کے بعد مذہبی رہنماؤں نے انھیں آیت اللہ خمینی کا جانشین مقرر کر دیا۔
بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ خامنہ ای بہت کم ایران سے باہر جاتے ہیں۔ وہ مرکزی تہران میں واقع ایک کمپاؤنڈ میں اپنی اہلیہ کے ہمراہ ایک سادہ زندگی گزارتے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ وہ باغبانی اور شاعری کے شوقین ہیں۔ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ جوانی میں سگریٹ نوشی کرتے تھے جو کہ ایران کے مذہبی رہنما کے لیے ایک غیر معمولی بات ہے۔ 1980 کی دہائی میں ان پر ہونے والے ایک قاتلانہ حملے کے بعد سے خامنہ ای اپنا دایاں بازو استعمال نہیں کر سکتے ہیں۔خامنہ ای کی اپنی اہلیہ منصوره خجسته باقرزاده سے چھ بچے ہیں جن میں چار بیٹے اور دو بیٹیاں شامل ہیں۔
خامنہ ای خاندان شاذ و نادر ہی عوام یا میڈیا کے سامنے آتا ہے۔ خامنہ ای کے بچوں کی نجی زندگی کے بارے میں سرکاری اور مصدقہ اطلاعات بہت محدود ہیں۔ان کے بچوں میں ان کے دوسرے بیٹے مجتبیٰ اپنے اثر و رسوخ اور خامنہ ای کے قریبی حلقوں میں اپنے کردار کی وجہ سے سب سے زیادہ جانے جاتے ہیں۔مجتبیٰ نے تہران کے علاوی ہائی سکول سے تعلیم حاصل کی۔ یہ وہی سکول ہے جہاں روایتی طور پر ایران کے اعلیٰ سرکاری عہدیداروں کے بچے پڑھتے ہیں۔
ان کی شادی قدامت پسند شخصیت غلام علی حداد عادل کی بیٹی سے اس وقت ہوئی جب وہ عالم نہیں بنے تھے اور قم میں مذہبی تعلیم شروع کرنے کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ مجتبیٰ نے 30 برس کی عمر میں قم کے مدرسے سے باقاعدہ مذہبی تعلیم حاصل کرنے کا آغاز کیا۔
2000 کی دہائی کے وسط تک ایران کے سیاسی حلقوں میں مجتبیٰ کا اثر و رسوخ کافی بڑھ گیا لیکن اس بارے میں میڈیا میں بہت کم بات کی جاتی ہے۔سنہ 2004 میں مجتبیٰ پہلی مرتبہ اس وقت خبروں کی زینت بنے جب مہدی کروبی نامی صدارتی امیدوار نے آیت اللہ خامنہ ای کے نام کھلے خط میں ان پر پس پردہ احمدی نژاد کی حمایت کے لیے کام کرنے کا الزام لگایا۔
2010 کی دہائی سے انھیں ایران کے بااثر ترین شخصیات میں سے ایک کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ خامنہ ای انھیں اپنے جانشینی کے لیے موزوں ترین امیدوار کے طور پر دیکھتے ہیں۔ تاہم، کچھ سرکاری ذرائع اس بات کی تردید کرتے ہیں۔آیت اللہ کوئی بادشاہ نہیں جو اپنا تخت اپنے بیٹے کو سونپ سکیں۔ تاہم، مجتبیٰ آیت اللہ خانہ ای کے قریبی حلقوں بشمول رہبرِ اعلیٰ کے دفتر میں کافی اثرورسوخ رکھتے ہیں۔
ایران پر حملوں کے بعد پاکستان کو نیوکلیئر پروگرام کیسے بچانا ہے؟
خامنہ ای کے سب سے بڑے بیٹے مصطفیٰ خامنہ ای ہیں۔ ان کی اہلیہ قدامت پسند مذہبی رہنما عزیزالله خوشوقت کی بیٹی ہیں۔مصطفیٰ اور مجتبیٰ نے 1980 کی دہائی میں ایران اور عراق کے درمیان جنگ کے دوران اگلے محاذوں پر خدمات سر انجام دی ہیں۔علی خامنہ ای کے تیسرے بیٹے مسعود 1972 میں پیدا ہوئے۔ ان کی شادی قم کے مدرسے کے معلموں کی ایسوسی ایشن سے تعلق رکھنے والے عالم سید محسن خرازی کی بیٹی سے ہوئی۔مسعود خامنہ ای سیاسی حلقوں سے دور رہتے ہیں اور ان کے بارے میں معلومات بہت محدود ہیں۔وہ پہلے اس دفتر کے سربراہ تھے جو آیت اللہ خامنہ ای کے لیے ایک اہم پروپیگنڈہ مرکز کے طور پر کام کرتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ دفتر ان کے والد کے کاموں کو محفوظ کرنے کا کام بھی کرتا ہے۔ خامنہ ای کی سوانح حیات اور یادداشتیں مرتب کرنے کی ذمہ داری بھی مسعود پر ہے۔
خامنہ ای کے سب سے چھوٹے بیٹے میثم 1977 میں پیدا ہوئے اور اپنے باقی تینوں بھائیوں کی طرح وہ بھی عالم ہیں۔ خامنہ ای کی بیٹیوں بشریٰ اور ہدیٰ کے بارے میں بہت محدود معلومات دستیاب ہیں۔ یہ دونوں اپنے بھائی بہنوں میں سب سے چھوٹی ہیں اور 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد پیدا ہوئی ہیں۔