رخشندہ خٹک کو پاکستان کی پہلی سپر ماڈل کیوں کہا جاتا ہے؟

52 سالہ کینیڈین اداکار اور ہدایتکار چنگیز جویری کی والدہ رخشندہ خٹک نے 1960 کی دہائی کے اواخر سے لگ بھگ 20 سال تک پاکستان میں ہر بڑے برانڈ کی مصنوعات کی تشہیر کی۔کہیں پینٹ ان کے ذریعے بِک رہا ہے، کہیں کوئی مشروب۔ کہیں ان کے چمکتے دانت کسی ٹوتھ پیسٹ کی فروخت کا باعث ہیں تو کہیں ان کی تابناک مسکراہٹ کسی پنج تارا ہوٹل کی نمائندگی کر رہی ہے، اخبار، میگزین، ٹیلی وژن، ہر جگہ لیکن کامیابی کا یہ سفر تھا البتہ مشکل۔خٹک والد اور برمی والدہ سے ملی خوبصورت اور بلند قامت لیے رخشندہ نے جب کام شروع کیا تب پاکستان میں ایک ’’ٹاپ ماڈل‘‘ کے ایک شوٹ کا معاوضہ تقریباً 1000 روپے تھا جبکہ انھیں صرف 300 روپے ملتے، وہ اشتہاروں کی ضرورت بن چکی تھیں، رخشندہ خٹک نے پاکستان میں سب سے زیادہ معاوضہ لینے والی ماڈل کے طور پر شوبز میں شہرت حاصل کی۔ مگر رخشندہ صرف چہرہ نہیں تھیں، انھوں نے 1965 میں سینٹ میری، راولپنڈی سے سینئر کیمبرج پاس کیا، انھیں زبانیں سیکھنے کا شوق تھا۔ وہ فارسی، پشتو، اردو، انگریزی، پنجابی اور جرمن جانتی تھیں، چنگیز کے مطابق انھیں پڑھنے کا بہت شوق تھا، خاص طور پر اگاتھا کرسٹی کو۔ کئی بار رات رات بھر جاگ کر ان کا ناول یا کوئی کتاب ختم کرتیں۔بورجیس نے 1969 میں رخشندہ کے ایک انٹرویو میں لکھا کہ وہ اپنے کپڑے خود ڈیزائن کرتیں اور کچھ کی خود سلائی کرتیں، گھر کو پیشہ ورانہ طور سے سجایا اور چاہے برمی ہو یا پاکستانی بہت ہی لذیذ پکوان بناتی تھیں،1970 ہی میں رخشندہ اور حسین کی شادی ہوئی، انگریزی جریدے ہیرالڈ نے تب لکھا تھا کہ رخشندہ کے لیے گھریلو زندگی ایسے ہی تھی، جیسے بطخ کے لیے پانی، ان کا کہنا تھا کہ مجھے نہیں لگتا کہ یہ بالکل سست ہے، ہر روز کچھ نہ کچھ دلچسپ ہوتا ہے، میں اور حسین جب بھی ممکن ہو شکار کے لیے جاتے ہیں۔ ہمارے پاس 60 لو برڈز، کافی تعداد میں گولڈ فش ہیں اور ظاہر ہے، مرغیاں بھی پالی ہوئی ہیں۔کراچی میں پیدا ہونے والے چنگیز نے مجھے بتایا کہ ’والد میری والدہ کے لیے انتہائی عمدہ زیورات بناتے تھے۔پاکستان میں وہ ہمیشہ یا تو پارٹیوں کے مہمان ہوتے یا میزبان، ہفتے میں کم از کم تین بار تو وہ باہر جاتے لیکن والد اور میرے لیے کھانا پکا کر ماں اپنی محبت کا اظہار کرتیں۔ وہ کراٹے میں بلیک بیلٹ حاصل کرنے والی پہلی اور جیو جِتسو میں بلیک بیلٹ لینے والی دوسری پاکستانی خاتون تھیں۔چنگیز نے خود بھی پاکستان میں رہتے ہوئے پانچ سال کی عمر ہی میں ایکٹنگ اور ماڈلنگ شروع کر دی تھی، تب کمپنیاں کیلنڈر چھاپتی تھیں۔ وہ ایک کمپنی کے 1978 کے کیلنڈر کا چہرہ بنے، ہم نے 1978 میں جون کے آخر میں پاکستان چھوڑ دیا، اس لیے کہ ضیا اقتدار میں آ چکے تھے۔کینیڈا میں آباد ہونا مشکل تھا، خاص طور پر ماں کے لیے۔ انھیں پاکستان اور خاص طور پر کراچی کی روشنیوں اور رونق بھری نائٹ لائف بہت یاد آتی۔ چنگیز کا کہنا تھا کہ ’ہم نے اپنا ویڈیو سٹور کھولا، جو 20 سال سے زیادہ عرصہ چلا۔ یہی سٹور ایک شام ایک شخص لوٹنے آ گیا۔میں اور میرے والد کہیں گئے ہوئے تھے۔ میری ماں سٹور پر اکیلی تھیں۔ جب وہ آدمی کاؤنٹر کے پاس آیا تو میری ماں کے پاس اتنا وقت تھا کہ وہ یہ سوچیں کہ اسے پیسے دینا ہیں یا اسے مار بھگانا ہے۔ انھوں نے مار بھگانے کا انتخاب کیا۔ایک ہاتھ سے اس کی کلائی قابو کرتے ہوئے، دوسرے ہاتھ اور لاتوں سے اس کی پٹائی کرنے لگیں۔ تھوڑی ہی دیر میں چاقو اس کے ہاتھ سے گر گیا اور اس نے دکان سے باہر نکلنے کی کوشش کی۔ ماں گلی میں اس کا پیچھا کرتی رہیں اور وہاں اکٹھے ہونے والے لوگوں کے سامنے اسے مارتی رہیں۔رخشندہ خٹک کی وفات ان کی 62ویں سالگرہ کے دس روز بعد 17 دسمبر 2011 کو کیلگری میں ہوا۔چنگیز کہتے ہیں کہ ’حال ہی میں نہ صرف میری ماں بلکہ اس دور کی دوسری خواتین کا کام بھی لوگوں کے لیے مشعلِ راہ بنا ہے۔ ان لوگوں کے کاموں پر روشنی ڈالنا آج کے کسی بھی نوجوان کو راہ دکھائے تو ماں کو اچھا لگے گا، چنگیز نے بات سمیٹتے ہوئے کہا کہ جب ان کا انتقال ہوا تو مجھے ان کے ہاتھوں کی طرف دیکھنا یاد ہے، جن میں کئی برسوں تک مارشل آرٹس کرنے اور کھانا پکانے کی وجہ سے درد ہوتا تھا۔ میں نے ان ہاتھوں کو دیکھا اور سوچا کہ ان ہاتھوں نے میری حفاظت کرنے اور مجھے محبت دینے کی پوری کوشش کی۔

کیا آصفہ بھٹو اپنے بھائی بلاول بھٹو کی جگہ لینے والی ھیں؟

Back to top button