سستا پٹرول منصوبہ، آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی خطرے میں

حکومت نے مہنگائی کے اثرات کم کرنے کے لیے موٹر سائیکلز اور 800 سی سی تک کی گاڑیاں رکھنے والے صارفین کو 100 روپے فی لیٹر سبسڈی دینے کی اسکیم متعارف کرانے کا اعلان کیا ہے۔مجوزہ اسکیم کے تحت امیر طبقے کو 100 روپے مہنگا پیٹرول فروخت کر کے سبسڈی پوری کی جائے گی۔

حکومت کی جانب سے پیٹرول کی قیمتوں میں رعایت کے منصوبے کے اعلان کے بعد یہ سوالات جنم لے رہے ہیں کہ آیا پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت پیٹرول پر سبسڈی دینے کا سیاسی فیصلہ کر رہی ہے جو ملک کی معاشی مشکلات میں اضافہ کر سکتا ہے یا پھر یہ واقعی ایک قابل عمل منصوبہ ہے جو غیر معمولی مہنگائی کی لہر میں عوام کو کچھ ریلیف فراہم کر سکے گا۔اس سوال کی وجہ یہ ہے کہ حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان وہ سٹاف لیول معاہدہ ہے جو اب تک حتمی شکل اختیار نہیں کر سکا جس کی بنیاد پر قرضہ پروگرام کو بحال ہونا ہے اور پاکستان کو قرضے کی قسط وصول ہونی ہے۔

دوسری جانب آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان نے اس نئے منصوبے کے اعلان سے قبل ان سے مشاورت نہیں کی۔ایسے میں تجزیہ کاروں کے مطابق آئی ایم ایف کسی نئی حکومتی سکیم پر اعتراض کر سکتا ہے اور قرضہ بحالی کا پروگرام مزید تاخیر کا شکار ہو سکتا ہے۔ دوسری جانب آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ اسکیم کے آپریشنل معاملات اور غلط استعمال کی روک تھام سے متعلق تحفظات کے حوالے سے مزید تفصیلات حاصل کی جارہی ہیں۔

یاد رہے کہ حکومت کی جانب سے فی الحال اس ضمن میں صرف اعلان کیا گیا ہے، تاہم یہ رعایت کس طرح اور کس حد تک دی جائے گی اس کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔

بعض تجزیہ کار اس مجوزہ اسکیم کے قابلِ عمل ہونے پر بھی سوال اُٹھا رہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ایسی کسی اسکیم پر عمل درآمد کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا کیوں کہ اس حوالے سے کوئی ڈیٹا نہ ہونے کے باعث اس سبسڈی کو مستحق افراد ہی کو دینے کے لیے کوئی مناسب طریقہ کار اپنانا مشکل دکھائی دیتا ہے۔

ماہر معاشیات اور تجزیہ کار سمیع اللہ طارق کا کہنا ہے کہ یہ خیال تو اچھا ہے جس کے تحت حکومتی خزانے پر کوئی بوجھ ڈالے بغیر امیر طبقات کو زیادہ قیمت ادا کرکے کم آمدنی والے طبقات کو رعایت دی جائے گی۔لیکن ان کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے اعداد و شمار کی کمی ہے اور ہمارے ہاں موٹر سائیکل عام طور پر اوپن لیٹر پر مالک کے بجائے کوئی اور بھی چلارہے ہوتے ہیں۔

سمیع اللہ طارق کہتے ہیں کہ اگر یہ اعداد و شمار ٹھیک طور پر حاصل بھی کر لیے جائیں تب بھی اس قسم کی سبسڈی کی تقسیم ایک مشکل امر ضرور ہے اور اس کا غلط استعمال بھی ہوسکتا ہے۔ تاہم انہوں نے بتایا کہ اس طرح کی سبسڈی انڈونیشیا، بھارت کی کچھ ریاستوں اور چند دیگر ممالک میں بھی کامیابی سے چلائی جارہی ہیں۔

تجزیہ کار خرم شہزاد کا خیال ہے کہ غریبوں کو سبسڈی دینا ٹھیک تو ہے لیکن کسی درآمدی چیز پر سبسڈی نہیں دی جانی چاہیے۔انہوں نے یہ بھی نشان دہی کی کہ ملک میں تمام موٹر سائیکل سوار تو غریب نہیں ہیں۔ بہت سے لوگ اسے سہولت کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔ ایسے میں یہ سبسڈی ان مستحق افراد کے سوا دیگر کو بھی مل جائے گی۔

خرم شہزاد کے مطابق اگر حکومت کی کوشش ہے کہ درآمدی ایندھن کی طلب کو کم کیا جائے تاکہ درآمدی بل کم ہو تو اصل قیمت اور ٹیکس عائد کرکے ایندھن کی فروخت جاری رکھنی چاہیے۔ان کے خیال میں مارکیٹ کی قیمت سب کے لیے برابر ہونی چاہیے۔ اس حوالے سے سب سے بہتر طریقہ یہی ہے کہ ملک میں غریب ترین افراد کا ڈیٹا، جو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت بنایا گیا ہے استعمال کرتے ہوئے ان کے بینک اکاؤنٹس میں براہ راست رقم جمع کردی جائے۔وہ کہتے ہیں کہ اس خاندان کو یہ فیصلہ خود کرنے دیا جائے کہ آیا وہ اپنے خاندان کے لیے غذائی اشیا کی مقدار کو بہتر بنانا چاہتے ہیں یا وہ ان پیسوں کا ایندھن استعمال کرنا چاہتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس قسم کی تجویز پر تحریکِ انصاف کی سابق حکومت بھی غور کررہی تھی جس کے لیے کئی مہینوں تک پائلٹ پراجیکٹ بھی چلایا گیا تھا۔ اس منصوبے کے تحت اہل شخص کو سبسڈی کارڈ دیا جانا تھا اور وہ پیٹرول اسٹیشن پر یہ کارڈ دکھا کر 30 فی صد رقم حکومتی فراہم کردہ کارڈ سے اور بقایا پیسے کیش میں ادا کرسکتا تھا۔

خرم شہزاد کے مطابق فیول سبسڈی کو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ڈیٹا بیس سے منسلک نہ کرنا اس ملک کے غریبوں کے ساتھ ناانصافی ہو گی۔ ایسا کرنے سے یوں سبسڈی کا مقصد یعنی غریب ترین افراد کی مدد کرنا بھی پورا ہوگا اور شفافیت بھی برقرار رہے گی۔انہوں نے کہا کہ ملک میں ایسے غریب لوگ بھی ہیں جو موٹر سائیکل اور چھوٹی گاڑیوں کے مالکان سے بھی زیادہ مستحق ہیں۔

ان کے بقول تمام مصنوعات بشمول پیٹرولیم مصنوعات اور سروسز کا تعین مارکیٹ کی قیمتوں پر ہی مبنی ہونا چاہیے۔ حکومت کو ہر قسم کی مداخلت سے نکل کر مستحقین کو براہ راست سبسڈی فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے اس نکتے کی جانب بھی نشان دہی کی کہ حکومتی اسکیم کے تحت کسی بھی صورت میں اس سبسڈی کی رقم ، کار مالکان اور زیادہ فیول چارجز ہی سے آرہی ہے، حکومت کی جیب سے نہیں۔اُن کے بقول ایسے میں حکومت درحقیقت ایک طبقے سے پیسے لے کر دوسرے کو دے رہی ہے جسے کراس سبسڈی کہا جاتا ہے۔ کراس سبسڈی کبھی بھی اچھا خیال نہیں رہا، یہ اچھی سیاست تو ہو سکتی ہے لیکن اچھی معاشیات بالکل نہیں۔

خیال رہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے بھی اپنے آخری مہینوں میں پیٹرولیم مصنوعات پر بھاری سبسڈی دی تھی جس سے قومی خزانے کو ماہانہ 120 ارب روپے کا نقصان ہورہا تھا۔ان وجوہات کی بنا پر آئی ایم ایف کا قرض پروگرام مہینوں معطل رہا تھا اور حکومت کی جانب سے سبسڈی ختم کیے جانے کے بعد ہی پروگرام بحال ہوسکا تھا۔

ممنوعہ فنڈنگ کیس:شوکاز نوٹس پر پی ٹی آئی کے اعتراضات مسترد

Related Articles

Back to top button