کیا آئی ایم ایف عمران کی وجہ سے معاہدہ نہیں کر رہا؟

عمران خان کی انتشاری سیاست کی وجہ سے ملک میں بد امنی کی فضا قائم ہے اور ملکی سیاسی میں غیر یقینی کی صورتحال کو بنیاد بنا کر آئی ایم ایف نے بھی مختلف حیلوں بہانوں سے فوری طور پر فنڈز کی فراہمی کو روک لیا ہے۔ پاکستان کی جانب سے عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کی کئی شرائط پوری کرنے کے باوجود قرضے کی قسط جاری ہونے میں تاخیر ہو رہی ہے جس سے دیگر مالیاتی اداروں اور دوست ممالک سے قرضوں کے حصول کا معاملہ بھی زیرِ التوا ہے۔

معاشی ماہرین کے مطابق آئی ایم ایف حکام پاکستان کی صورتِ حال سے آگاہ ہیں اور وہ ملک میں جاری سیاسی بدامنی کے دوران کبھی فنڈز جاری نہیں کریں گے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف حکام اس بات کی یقین دہانی لینا چاہ رہے ہیں کہ پاکستان میں حکومتی سطح پر کسی بھی قسم کہ تبدیلی سے ان کے ساتھ کئے گئے معاہدے پر کوئی اثر نہیں پڑنا چاہیے۔ تاہم دوسری طرف حکومت کا دعویٰ ہے کہ آئی ایم ایف سے قسط ملنے میں تاخیر کا تعلق پاکستان میں سیاسی انتشار سے نہیں ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ سال ستمبر سے رکے ہوئے اس پروگرام کو غیر ملکی زرمبادلہ کے انتہائی کم ذ خائر رکھنے والے پاکستان کی معیشت کو دیوالیہ ہونے سے بچانے اور فنڈنگ کے دیگر ذرائع کھولنے کے لیے نہایت اہم قرار دیا جا رہا ہے۔بعض تجزیہ کاروں اور معیشت دانوں اور کچھ سفارتی ذرائع بھی اس بات کی خبر دے رہے ہیں کہ فنڈ کی جانب سے اسٹاف لیول ایگریمنٹ کرنے میں تاخیر کی وجہ اب انتظامی یا معاشی اقدامات سے زیادہ ملک کی سیاسی صورتِ حال ہے۔

بعض ماہرین کے مطابق فنڈ کو اس بات پر تشویش ہے کہ کیا مستقبل میں ملک پر حکمرانی کرنے والی حکومت آئی ایم ایف کی جانب سے دیے گئے اصلاحاتی پروگرام کو جاری رکھنے میں دلچسپی لے گی یا نہیں؟ خیال رہے کہ اسٹاف لیول ایگریمنٹ کے بعد فنڈ کے ایگزیکٹو بورڈ سے بھی قرض ملنے کی منظوری لازم ہے تب کہیں جاکر پروگرام بحال ہوسکے گا۔یہاں سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ سیاسی غیر یقینی کے بادل پروگرام بحالی میں رکاوٹ کیسے؟وزارت خزانہ کے سابق مشیر اور آئی ایم ایف سے ماضی میں ہونے والے کئی مذاکرات میں شریک رہنے والے ڈاکٹر خاقان نجیب کا کہنا ہے کہ ملک میں صرف سیاسی عدم استحکام ہی نہیں بلکہ سیاسی غیر یقینی کی صورت حال بھی ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف اور دوست ممالک کی فنڈنگ میں رکاوٹیں پیدا ہورہی ہو رہی ہے۔ اب تک وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اسمبلیوں کے انتخابات کب ہوں گے اور قومی سطح پر رواں برس انتخابات ہو پائیں گے یا نہیں؟

ڈاکٹر نجیب کا کہنا ہے کہ اگرچہ حکومت پاکستان نے فنڈ کی جانب سے مطالبے پر اپنے حصے کے تقریبا تمام ہی کام مکمل کر لیے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس سے پاکستانی عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔ لیکن ان کے خیال میں فنڈنگ کے لیے دیگر تمام ذرائع جن میں دوست ممالک کی فنڈنگ بھی شامل ہے اس کی تاحال یقین دہانی نہیں مل سکی۔

ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر خاقان کا کہنا تھا کہ حکومت پاکستان کو ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے کہ فنڈ کے ساتھ قرض پروگرام کے نویں جائزے کو جلد از جلد مکمل کیا جائے۔ دوست مملک کو سفارتی کوششوں سے اس بات پر قائل کرے کہ وہ جلد اس حوالے سے فنڈ کو یقین دہانیاں کرائیں تاکہ پروگرام بحال ہو۔ان کا کہنا تھا کہ دوسری جانب فنڈ اور خود پاکستان کے دوست ممالک کو بھی احساس کرنا چاہیے کہ پاکستان کے معاشی مسائل درحقیقت اس کی معاشی ساخت سے جڑے ہوئے ہیں اور انہیں حل کرنا ضروری ہے۔

ڈاکٹر خاقان کے بقول آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان اعتماد کا فقدان نظر آتا ہے اور اس کی کئی وجوہات ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ جہاں ملک میں سیاسی غیر یقینی ہے اور حکومت نے معاشی میدان میں مشکلات پر قابو پانے کے لیے کافی سست روی سے کام لیا ہے وہیں بجٹ بھی فنڈ کی توقعات کے مطابق نہیں بنایا گیا۔

سابق مشیر برائے خزانہ ڈاکٹر سلمان شاہ نے بھی اس سے اتفاق کیا ہے اور کہا ہے کہ فنڈ کی جانب سے پروگرام کو دوبارہ سے شروع کرنے میں ہماری سیاست ایک بڑی وجہ ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ سیاسی انتشار میں کوئی بھی حکومت معاشی اصلاحات پر توجہ نہیں دے سکتی جن اقتصادی امور پر حکومت کو فوری فیصلے کرنے ہیں ان میں بھی تاخیر ہو گی اور ہوسکتا ہے کہ جو فیصلے کیے جائیں ان پر عملی اقدامات نہ اٹھائے جاسکیں۔

ڈاکٹر سلمان شاہ کے مطابق دوسری جانب یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ دیگر ممالک سے جو پیسے پاکستان کو ملنے ہیں یا قرضوں کی ری شیڈولنگ کی جانی ہے اس کا بھی انحصار اس پر ہے کہ پاکستان میں سیاسی استحکام ہو۔انہوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کے دوست ممالک بھی ملک میں ہونے والی حالیہ سیاسی کشیدگی اور تصادم پر زیادہ بہتر رائے نہیں رکھتے۔

ڈاکٹر سلمان شاہ کے خیال میں اگر ہم سیاسی بحران کو حل کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں تو بھی الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہونا ہے پھر نگران سیٹ اپ جو آئے گا وہ بھی دیکھنا ہوگا کہ نگراں حکومت میں کون آرہا ہے۔ اس کے بعد منتخب حکومت کو اقتدار کی منتقلی کے بعد کیا آئی ایم ایف پروگرام مکمل کیا جائے گا یا نہیں اس کی بھی فنڈ کو یقین دہانیاں درکار ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ظاہر ہے کہ قرض دینے والے ممالک ہوں یا مالیاتی ادارے اس بات کے امکانات کو بھی مد نظر میں رکھتے ہیں کہ آنے والی حکومت اس قدر مستحکم ہوگی یا نہیں۔

ایک اور سوال کے جواب میں ڈاکٹر شاہ کا کہنا ہے کہ انہیں لگتا ہے کہ موجودہ حکومت اب معیشت کی بہتری پر کوئی خاص خاص دلچسپی بھی نہیں لے رہی۔اُن کے بقول اس وقت حکومت کا زیادہ تر فوکس سیاست پر نظر آتا ہے کیوں کہ حکومت کو اندازہ ہوچکا ہے کہ اگر یہ پروگرام بحال ہو یا نہیں ان کو نقصان ہی ہونا ہے اس لیے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کے اندر اس پروگرام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی دلچسپی کم ہو چکی ہے۔

دوسری جانب سینیٹ کے اجلاس کے دوران جب سوال کیا گیا کہ فنڈ اور حکومت کے درمیان اسٹاف لیول کے معاہدے پر دستخط میں تاخیر کی وجوہات کیا ہیں؟ تو وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ یہ تاخیر حکومت کی طرف سے نہیں ہے بلکہ گزشتہ حکومت کے دور میں معاشی اعشاریوں پر آئی ایم ایف کی نظرِ ثانی کافی طوالت اختیار کر رہی ہے۔اُن کے بقول فنڈ کی جانب سے زیادہ مطالبات رکھے جاتے رہے لیکن ان حقائق کے باوجود موجودہ حکومت نے فنڈ کی تجاویز پر عمل کرتے ہوئے ایکشن پلان مکمل کیا ہے۔وزیر خزانہ نے مزید کہا کہ گزشتہ جائزوں کے وقت بعض دوست ممالک نے پاکستان کی دو طرفہ معاشی حمایت کے وعدے کیے تھے۔ اب آئی ایم ایف یہ کہہ رہا ہے کہ وہ دوست ممالک ان وعدوں کو حقیقت میں پورا کریں اور انہیں عملی جامہ پہنائیں۔

ادھر دوسری جانب ملک میں غیر ملکی زرمبادلہ کے کم ذخائر کی وجہ سے چین پاکستان اقتصادی راہداری سی پیک کے تحت قائم کیے گئے کوئلے پر چلنے والے پاور پلانٹس کے بقایا جات ایک بار پھر ڈیڑھ ارب ڈالرز سے تجاوز کرچکے ہیں۔

توشہ خانہ کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والے فوجی افسران کون؟

Related Articles

Back to top button