گرفتاری کے ڈر سے عمران کی ہوا کیوں نکل گئی؟

عمران خان نے ملکی سیاست میں کئی نئے ٹرینڈز متعارف کروائے ہیں۔ عمران خان وہ واحد سیاستدان ہیں جو اپنی گرفتاری اور جیل جانے سے خوفزدہ ہیں اور گرفتاری سے بچنے کیلئے تشدد کا راستہ اپنا رہے ہیں حالانکہ ماضی میں سیاستدان ہمیشہ ہنستے ہوئے وکٹری کا نشان بناتے جیلوں میں گئے اور عوام کیلئے پابند سلاسل رہنے کو زندگی بھر اپنے لئے قابل فخر قرار دیتے رہے۔
عمران خان کی گرفتاری کیلئے آنے والے سیکیورٹی اہلکاروں پر عمرانڈوز نے پتھروں، ڈنڈوں اور پٹرول بموں سے حملہ کیا اور عمران خان کو حراست سے بچا لیا حالانکہ ماضی میں نواز شریف اور باچا خان سے لے کر ذوالفقار علی بھٹو تک متعدد پاکستانی سیاسی رہنما پاکستان کے طول و عرض میں واقع جیلوں میں قید رہ چکے ہیں۔
سابق وزیرِاعظم میاں محمد نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کو پانامہ کیسز کی تحقیقات کے سلسلے میں نیب ٹیم نے جولائی 2018ء کو لندن سے پاکستان پہنچنے پر جہاز کے اندر سے ہی گرفتار کرلیا تھا۔علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر طیارے کے اترتے ہی 3 خواتین اہلکاروں سمیت نیب کی 16 رکنی ٹیم نے قانونی کارروائی شروع کردی۔ اس دوران ایف آئی اے اہلکاروں نے نواز شریف اور مریم نواز کے پاسپورٹس تحویل میں لے لیے اور دونوں کی امیگریشن جہاز کے اندر ہی کر لی گئی۔
تمام قانونی کارروائی مکمل کرنے کے بعد دونوں رہنماؤں کو حراست میں لے لیا گیا جس کے بعد خصوصی طیارہ انہیں لے کر اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ پہنچا جہاں سے دونوں کو الگ الگ اسکواڈ کے ذریعے اڈیالہ جیل منتقل کردیا گیا تھا اس وقت ن لیگ کے ورکر بھی سڑکوں پر تھے تاہم کوئی مزاحمت یا تشدد دیکھنے میں نہیں آیا۔واضح رہے کہ یہ تمام عمل پُرامن رہا۔ اگرچہ نواز شریف کے استقبال کے لیے میاں شہباز شریف کی قیادت میں قافلہ لاہور ایئرپورٹ کی جانب رواں دواں تھا مگر وہ وہاں تک پہنچ نہ سکا۔
اسی طرح سابق صدرِ پاکستان اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کو جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کے سلسلے میں 10 جون 2019ء کو اسلام آباد میں ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کیا گیا تھا۔ گرفتاری کے وقت آصف زرداری مسکراتے رہے اور جب سیکیورٹی اہلکار سابق صدر آصف علی زرداری کو گرفتار کرنے آئے تو صدر زرداری نے ان سے حال احوال پوچھا اور چائے اور بسکٹ سے تواضع بھی کی۔ اس موقع پر انہوں نے بیٹے بلاول بھٹو اور بیٹی کو گلے لگایا اور جیل روانہ ہوگئے۔ اس وقت بڑی تعداد میں کارکن زرداری ہاؤس کے باہر موجود تھے مگر آصف زرداری نے کسی کو تشدد پر نہیں اکسایا بلکہ عدالتوں کا سامنا کیا۔آصف علی زرداری کی گرفتاری پر کارکنان نے کراچی اور سندھ کے متعدد شہروں میں علامتی احتجاج بھی کیا تاہم یہ احتجاج بھی پُرامن طور پر ختم ہو گیا۔
18 جولائی 2019ء کو سابق وزیرِاعظم شاہد خاقان عباسی جب پارٹی صدر شہباز شریف کی پریس کانفرنس میں شرکت کے لیے لاہور جارہے تھے تو انہیں لاہور موٹر وے ٹول پلازہ کے قریب سے حراست میں لیا گیا تھا۔شاہد خاقان عباسی کو ایل این جی ریفرنس کی تحقیقات کے سلسلے میں نیب راولپنڈی نے طلب کر رکھا تھا تاہم وہ پیش نہ ہوئے جس پر انہیں گرفتار کرکے اسلام آباد منتقل کردیا گیا تھا۔
گرفتاری کے وقت احسن اقبال اور مریم اورنگزیب بھی گاڑی میں موجود تھے۔ شاہد خاقان عباسی نے گاڑی کو لاک کر رکھا تھا اور پولیس سے کہہ رہے تھے کہ ‘وارنٹ گرفتاری دکھا دیں اور میں گرفتاری دے دیتا ہوں’۔احسن اقبال کے مطابق گرفتار کرنے کے لیے آنے والوں نے واٹس ایپ پر گرفتاری کا حکم نامہ دکھایا جس پر حکام سے اصلی وارنٹ دکھانے کا مطالبہ کیا تو کچھ دیر کے بعد وہ ایک ‘غیر تصدیق شدہ فوٹو کاپی’ لے آئے جسے دکھا کر شاہد خاقان عباسی کو گرفتار کیا گیا۔ شاہد خاقان عباسی کی گرفتاری کے بعد بھی کوئی احتجاج نہیں ہوا اور نہ ہی امن و امان کی صورتحال پیدا ہوئی۔
خیال رہے کہ پاکستان میں قد آور سیاسی رہنماؤں کے جیل جانے کا سلسلہ 1948 سے شروع ہوا جب خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان کو ریاست کے خلاف بیان دینے کے جرم میں گرفتار کر کے کوہاٹ جیل میں قید کیا گیا۔60 کی دہائی میں عبدالغفار خان راولپنڈی ڈسٹرکٹ جیل میں بھی قید رہے ہیں۔نوابزادہ نصراللہ خان نے جنرل ضیا الحق کے دور میں سینٹرل جیل لاہور میں قید کاٹی۔ اس کے علاوہ وہ اپنے گھر پر بھی نظر بند رہے۔بانی جماعت اسلامی سید مودودی کو 1953 میں عدالتی سزا کے بعد سینٹرل جیل لاہور اور ملتان کی ڈسٹرکٹ اور نیو سینٹرل جیل منتقل کیا گیا تھا۔
ذوالفقار علی بھٹو نے ضیا دور میں پہلے مری کے ایک ریسٹ ہاؤس میں نظر بندی گزاری اور بعد ازاں انہیں ڈسٹرکٹ جیل راولپنڈی میں رکھا گیا اور اسی جیل سے جڑے پھانسی گھاٹ میں میں انہیں پھانسی بھی دی گئی۔ 80 کی دہائی میں اس جیل کو ختم کر کے یہاں جناح پارک بنایا گیا اور جیل کو اڈیالہ منتقل کر دیا۔
اسی دوران بیگم نصرت بھٹو کو کراچی سینٹرل جیل اور بےنظیر بھٹو کو سکھر سینٹرل جیل میں قید میں رکھا گیا۔ دونوں خواتین رہنماؤں کو گھروں پر بھی نظر بند رہنا پڑا۔ضیا دور میں نواب اکبر بگٹی کو دیگر بلوچ رہنماؤں سمیت مچھ جیل میں قید میں رکھا گیا تھا۔ 90 کی دہائی میں آصف علی زرداری سینٹرل جیل کراچی اور کوٹ لکھپت جیل لاہور میں قید رہے۔مشرف دور میں یوسف رضا گیلانی نے اڈیالہ جیل راولپنڈی میں قید کاٹی اور اس دوران ’چاہِ یوسف سے صدا‘ کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی۔ ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین بھی سینٹرل جیل کراچی میں پابند سلاسل رہے۔
مشرف دور میں نواز شریف اٹک قلعے سمیت اڈیالہ جیل میں قید رہے۔ پاناما لیکس کے فیصلے کے بعد انہیں کوٹ لکھپت جیل لاہور سمیت اڈیالہ جیل میں بھی قید رکھا گیا۔نواز شریف کے بھائی اور موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف بھی مشرف دور میں اڈیالہ جیل میں قید رہے۔ عمران خان کے دور حکومت میں انہوں نے نیب لاہور کی جیل میں بھی وقت گزارا۔مریم نواز کو پاناما لیکس کے فیصلے کے بعد نیب لاہور کی کسٹڈی سمیت اڈیالہ جیل اور کوٹ لکھپت جیل لاہور میں وقت گزارنا پڑا۔
پاکستان میں سیاسی رہنماؤں کے جیل جانے کا تذکرہ عمرانڈو یو جانے والے شیخ رشید احمد کے ذکر کے بغیر ادھورا ہوگا، انہوں نے بھٹو دور میں گجرانوالہ جیل سمیت ڈسٹرکٹ جیل راولپنڈی میں بھی وقت گزارا۔