عمران کا اپنے سوا سب کو جیل بھجوانے کا منصوبہ

تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے ’’جیل بھرو تحریک‘‘ کیلیے گرفتاریوں کا شیڈول جاری تو کردیا ہے تاہم اپنا نام گرفتاریوں کی کسی فہرست میں شامل ہی نہیں کیا اور حفاظتی ضمانت حاصل کر کے خود کو گرفتاری سے بچا لیا ہے۔ دوسری طرف عمران خان نے تحریک کے دوران گرفتاریوں سے بھاگنے والوں کو کھسکنے کا موقع نہ دینے کیلیے فہرستوں اور اس میں سابق اراکین اسمبلی و رہنماﺅں کے نام شامل کرنے کا اختیار اپنے پاس رکھا ہے اور زیادہ تر ذمہ داریاں ان لوگوں کو تفویض کی ہیں جو پچھلے سال 25 مئی کے لانگ مارچ میں غیر متحرک قرار دیئے گئے تھے۔

یاد رہے کہ عمران خان نے جیل بھرو تحریک کا اعلان عدالت کے روبرو پیش ہونے کا فیصلہ کرنے سے پہلے ویڈیو لنک پر خطاب میں کیا تھا۔ پی ٹی آئی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان نے جیل بھرو تحریک کا اعلان کسی مشاورت کے بغیر کیا ہے۔ تاہم اس تحریک کیلیے تجویز پہلے سے ہی دی جارہی تھی جن سے کئی رہنما اختلاف رائے رکھتے تھے اور ان کا موقف تھا کہ ہم اپنے حلقوں کے معتبر لوگ ہیں، ہمیں گرفتاریاں دینے سے سماجی سطح پر مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور یہ ہمارے اس خاندانی وقار کے بھی منافی ہے جسے برقرا رکھنے کیلئے ہمارے علاقوں کے اعلیٰ افسر وقتاً فوقتاً ہمارے ڈیروں پر حاضری دینے کے پابند ہوتے ہیں۔

اس کے برعکس کچھ رہنماﺅں نے عمران خان کو یہ تک باور کروایا تھا کہ کارکنوں کا جذبہ ابھارنے کی ضرورت ہے، کارکنان نہ صرف جیلیں بھر دیں گے بلکہ اگر آپ کال دیں گے تو وہ جیلوں کو توڑ بھی دیں گے، تحریک کا اعلان ہونا چاہئے اور بھلے جیل بھرو اور جیل توڑو تحریک ہی کا اعلان کردیں جس پر عمران خان نے مسکراتے ہوئے جیل توڑ دو تحریک کی بات ٹال دی تھی۔

عمران خان کے فیصلے پر عملدرآمد کرتے ہوئے جماعت کی طرف سے جیل بھرو تحریک کے شیڈول کا باقاعدہ اعلان کیا گیا ہے۔ اس شیڈول کے تحت 22 فروری بدھ سے یکم مارچ تک روزانہ دو سو کارکنان اور چھ سابق اراکین اسمبلی رضاکارانہ طور پر گرفتاریاں پیش کریں گے اور انہیں گرفتار نہ کیے جانے کی صورت میں وہ مقررہ مقام پر دھرنا دیں گے۔ شیڈول کے تحت جمعرات 23 فروری کو پشاور، 24 کو راولپنڈی، 25 کو ملتان، 26 کو گوجرانولہ، 27 کو سرگودھا، 28 فروری کو ساہیوال اور یکم مارچ کو فیصل آباد میں رضاکارانہ گرفتاری دی جائے گی۔

پی ٹی آئی کے ذرائع کے مطابق ماضی میں اچانک بیماری کا بہانہ بنانے والوں کا راستہ محدود کرنے کیلئے عمران خان نے اپنی جماعت کے رہنماﺅں کی طبی تفصیلات پہلے ہی حاصل کرلی ہیں اور گرفتاریوں کے ساتھ ساتھ اسی دوران پیش آنے والی صورتحال میں ان کی غیر موجودگی کی صورت میں معاملات نمٹانے کیلیے بھی اختیارات تفویض کرنے کا فیصلہ کیا ہے جن پر عملدرآمد کیلیے ان کی منظوری لینا بھی لازمی ہوگا اور اس کے علاوہ بھی ایک سے زائد پلان ترتیب دیے گئے ہیں اور گزشتہ سال پچیس مئی کےاحتجاج کے دوران ’’کمزور‘‘ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والوں کو اب بہتر کارکردگی کا موقع دیا جارہا ہے، عمران خان نے جن رہنماﺅں کو زیادہ ذمہ داریاں سونپنے کا فیصلہ کیا ہے ان کے پی ٹی آئی میں شامل ہونے سے پہلے اپنی پرانی جماعتوں میں تنظیمی تحرک اور ذمہ داریوں کو خاص طور پر پیشِ نظر رکھا گیا ہے۔

ذرائع کے مطابق جنوبی پنجاب کے کچھ اضلاع کو جیل بھرو تحریک میں برائے نام شامل کیا گیا ہے، جنہیں ممکنہ طور پر دوسرے مرحلے میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ذرائع کے مطابق عمران خان کی طرف سے اب تک تیار کی جانے والی فہرست میں سابق وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار، اسد عمر سمیت کچھ اہم رہنماﺅں کے نام شامل نہیں ہیں، لیکن یہ نام کسی مرحلے پر بھی شامل ہوسکتے ہیں۔ اس میں کسی کو تاحال چھوٹ دیئے جانے کا امکان نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سابق اراکین اسمبلی کے نام فائنل رکھنے کا اختیار عمران خان نے اپنے پاس ہی رکھا ہے اور تمام سابق اراکین فیصلوں کے پابند بنائے گئے ہیں۔

سنجے لیلا بھنسالی کی’’ہیرامنڈی‘‘ کے سوشل میڈیا پر چرچے

Related Articles

Back to top button