حکومت کا عمران خان کو منہ توڑ جواب دینے کا فیصلہ

حکومتی اتحادی جماعتوں نے تحریک انصاف کو کالعدم تنظیموں کے شدت پسندوں پر مشتمل جتھا قرار دے کر پی ٹی آئی سے مفاہمت کے تمام دروازے بند کر دئیے ہیں اور وفاقی حکومت نے عمران خان کے ہر قسم کے دباؤ کو مسترد کرتے ہوئے ریاستی طاقت سے قانون کی عملداری کو ہر صورت یقینی بنانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ جس کے بعد پی ٹی آئی کی طرف سے مفاہمت کے اشارے دیے جانے کے باوجود مستقبل قریب میں کسی نتیجہ خیز پیش رفت کا امکان ختم ہو گیا ہے۔ تاہم دوسری جانب تجزیہ کاروں کے مطابق سیاسی کشیدگی میں کمی کے لیے تمام فریقین اوراسٹیبلشمنٹ کو باہمی کشیدگی کی بجائے مفاہمت کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔

پاکستان کے سیاسی حلقے آج کل اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ حکومت کی طرف سے کسی قسم کی لیک دکھانے سے صاف انکار کے بعد کیا مزاحمتی سیاست پر عمل پیرا عمران خان  اپنے مقاصد کے حصول کے لیے اپنی سیاست میں مفاہمانہ طرز عمل اپنا سکتے ہیں؟

اس سوال کے جواب میں تجزیہ کار مجیب الرحمن شامی کہتے ہیں کہ اس بارے میں حتمی طور پر تو کچھ نہیں کہا جا سکتا صرف دعا اور خواہش ہی کی جا سکتی ہے کہ عمران خان سمیت سارے سیاسی رہنما ملکی مفاد میں مفاہمت پر مبنی رویہ اپنائیں۔ ان کے خیال میں،” ملک اس وقت شدید بحران میں ہے،آئی ایم ایف سے معاہدہ نہیں ہو رہا اور پاکستان کو سخت شرائط کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ہو سکتا ہے کہ ملک کو درپیش مشکل صورتحال ہی عمران خان اور دوسرے سیاسی جماعتوں کو مفاہمت کی طرف لے آئے۔‘‘

صحافی جاوید فاروقی کا خیال ہے کہ عمران خان مزاحمتی سیاست سے اپنی مقبولیت کا گراف جتنا اونچا لے جا سکتے تھے اتنا اونچا وہ لے جا چکے ہیں اب انہیں اپنی مقبولیت کو انتخابی کامیابی میں ٹرانسلیٹ کرنا ہے اور یہ کام بغیر مفاہمت کے ممکن نہیں ہے۔ تاہم جاوید فاروقی کے خیال میں عمران خان اپنے آپ کو ملک کی سیاسی جماعتوں سے بہت بلند تر سمجھتے ہیں اور وہ صرف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہی مفاہمت چاہتے ہیں تاکہ انہیں انتخابات میں یکساں موقع مل سکے اور وہ نا اہلی سے بچ سکیں۔

کالم نگار سلمان عابد کا خیال ہے کہ مفاہمت کی سیاست کو اپنانا عمران خان کے اپنے مفاد میں بھی ہے اس لئے پی ٹی آئی نے حکومت کو بات چیت کی پیشکش کی ہے اب بال حکومت کی کورٹ میں ہے۔ اگر عمران اور مریم نواز اپنے اپنے لہجوں کی تلخی کو کچھ کم کر سکیں تو بات آگے بڑھ سکتی ہے۔

تجزیہ کار مجیب شامی مزید کہتے ہیں کہ سیاست میں کچھ بھی پائیدار نہیں ہوتا عمران خان کے ماضی کو دیکھتے ہوئے ان کی کسی بھی رائے کو حتمی قرار دینا آسان نہیں ہے۔ جاوید فاروقی کا خیال ہے کہ مفاہمت کی طرف آنا عمران خان کی مجبوری ہے وہ ہٹ دھرمی والا رویہ اپنا کر اور ملک کی ایک درجن سے زائد سیاسی جماعتوں کو نظر انداز کرکے اپنی مرضی کے فیصلے نہیں لے سکیں گے۔انہیں پاکستان کی زمینی حقیقتوں کو دھیان میں رکھنا پڑے گا۔

بعض سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ عمران خان اپنے جن مخالفین کو چور ڈاکو اور پاکستان کے دشمن اور غدار قرار دے چکے ہیں ان سے مفاہمت کی صورت میں ان کے بیانیے کو نقصان پہنچے گا لیکن بعض دوسرے مبصرین کا خیال ہے کہ چوہدری پرویز الہی کی مثال کو دھیان میں رکھا جانا چاہئے۔

کالم نگار سلمان عابد کہتے ہیں کہ انہیں لگتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ملک کے سیاسی عدم استحکام کو تشویش کی نگاہ سے دیکھ رہی ہے اور اس کی خواہش ہے کہ انتخابات کئی حصوں کی بجائے ایک ہی مرتبہ اکٹھے ہوں اور ملک میں استحکام آئے۔ ”وہ اس سلسلے میں بیک چینل کے ذریعے ان ڈائریکٹ طریقے سے اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔‘‘

بعض مبصرین کا ماننا ہے کہ پاکستان تحریک انصٓف جیسی مقبول ترین سیاسی جماعت کو ڈکٹیشن دینا آسان نہیں ہے لیکن جاوید فاروقی سمجھتے ہیں کہ پاکستان جیسے سیاسی ملکوں کے سیاسی نظام میں کسی سیاسی جماعت کی غیر معمولی مقبولیت اس کے لئے مصیبت کا باعث بھی بن جاتی ہے۔ اس سے پہلے کہ اسے قابل قبول سائز میں لایا جائے اس سے مفاہمت کی توقع بے جا نہیں۔

تاہم سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ سیاسی مفاہمت نہ ہونے کے نتائج کیا ہوں گے؟ سینئر صحافی مجیب الرحمن شامی کہتے ہیں کہ اس سوال کا جواب ہمیں متعدد بار پاکستان کی ماضی کی تاریخ میں مل چکا ہے۔  سیاست دان جب سیاسی مسائل خود نہ حل کر سکیں تو پھر مارشل لا آتا رہا ہے۔ معاملات سول حکمرانوں کے ہاتھ سے نکل جاتے ہیں لیکن ان کے بقول ابھی موجودہ صورتحال میں ملک کا کسی ایسے نتیجے کی طرف آنا بہت مشکل لگتا ہے۔ بدترین ملکی اقتصادی بحران، اور معاشرے میں پائی جانے والی غیرمعمولی تقسیم کے پیش نظر یہی مناسب ہے کہ تمام سٹیک ہولڈرز اپنا کردار ادا کرکے ملک کو محاذ آرائی سے نکالیں اور استحکام کی طرف سفر شروع کریں۔

مجیب شامی سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے لئے خطرات بڑھ رہے ہیں، ”غیریقینی صورتحال ختم ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔ کوئی نہیں جانتا کہ ملک کو معاشی استحکام کب نصیب ہوگا۔ ایسے میں صرف دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ سب فریق ملک کے مفاد میں سوچیں اور محاذ آرائی ترک کرکے ملک کو آگے لے جانے کی کوشش کریں۔‘‘

جاوید فاروقی کہتے ہیں کہ اگر سیاسی قوتیں مفاہمت کی طرف نہ آئیں تو پھرملک میں ایسا ماحول نہیں بن سکے گا، جس میں آنے والے دنوں میں ہونے والے سارے الیکشن قابل قبول ہو سکیں۔ اس لئے پہلے مفاہمت ہوگی پھر الیکشن ہو سکیں گے۔ ان کے خیال میں انہیں یقین نہیں ہے کہ اعلان کردہ دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات شیڈول کے مطابق ہو سکیں گے۔

سلمان عابد سمجھتے ہیں، ’’پرابلم صرف ایک ہے کہ کسی طرح حکومت ، اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ جلد انتخابات کرانے پر راضی ہوجائیں۔‘‘ ان کے مطابق اگر مئی جون میں الیکشن کرانے پر اتفاق ہو جائے تو اس سے بھی حالات میں بہتری آنے کی توقع ہو سکتی ہے۔

جنرل باجوہ نے عمران کو چالاک جھوٹا قرار دے دیا

Related Articles

Back to top button