قائد کے والد پونجاجناح کی زندگی کے نشیب و فراز کی کہانی

اس ملک کے قائد محمد علی جناح کے بارے میں تو سب جانتے ہیں مگر ان کے والد کی زندگی کے نشیب و فراز کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں۔۔1979 میں شائع کردہ کتاب ’پونجا جناح‘ میں مصنف رضوان احمد لکھتے ہیں قائد اعظم کا خاندان اسماعیلی تھا اور وہ گجرات کاٹھیا واڑ سے تعلق رکھتے تھے۔ جب انہیں معلوم ہوا کہ آغا خان ایران سے کراچی منتقل ہو گئے ہیں تو وہ بھی 1861 میں کراچی آ گئے، جس کی ایک وجہ کاٹھیا واڑ میں پڑنے والا قحط بھی تھا۔کراچی میں آکر پونجا میگھ جی نے کاروبار شروع کیا جو جلد ہی ’والجی پونجا بھائی‘ نامی فرم کی شکل اختیار کر گیا۔ یہ فرم مچھلی، گوند اور چمڑے کا کاروبار کرتی تھی جو بعد میں کمپنی بن گئی۔پونجا میگھ جی کے سب سے چھوٹے بیٹے کا نام جینا بھائی تھا، جس نے چرچ مشن سکول، جو کراچی کا پہلا انگریزی سکول تھا، میں تعلیم حاصل کی اور پھر اسی سکول میں استاد بن گئے۔شہر میں ان کی دوہری عزت تھی۔ ایک تو ان کا تعلق شہر کے معروف کاروباری خاندان سے تھا، دوسرا وہ پڑھے لکھے بھی تھے، جس کی وجہ سے جب جینا پونجا کا رشتہ آغا خان کے وزیر جمعہ موسیٰ کے گھر سے مانگا گیا تو انہوں نے ایک لمحے میں اپنی بیٹی شیریں کے لیے ہاں کہہ دی۔پونجا میگھ جی کے سب سے چھوٹے بیٹے کا نام تو پونجا بھائی تھا، تاہم ان کے چھوٹے قد کی وجہ سے انہیں جینا کہا جاتا تھا۔ گجراتی میں جینا دبلے پتلے کو کہتے ہیں۔جینا پونجا کے سسرال والے فارسی دان تھے۔ انہوں نے اس کو عربی کا لفظ ’جناح‘ سمجھنا شروع کر دیا، جس کے معنی بازو کے ہیں۔ اس طرح وہ جینا پونجا سے پونجا جناح کہلائے جانے لگے۔کراچی انگریزوں کی آمد سے قبل مٹی کی اونچی اونچی فصیلوں کے اندر آباد تھا۔ یہ فصیل اتنی چوڑی تھی کہ اس پر دو بیل گاڑیاں چلائی جا سکتی تھیں۔اس فصیل میں دو دروازے تھے ایک دروازہ ’میٹھا در‘ اور ’دوسرا کھارا در‘ کہلاتا تھا۔ رات کو قزاقوں سے بچنے کے لیے فصیلوں کے دروازے بند کر دیے جاتے تھے۔انگریزوں نے آکر فصیلیں توڑ دیں اور ان کے باہر دو سڑکیں بنائیں، جن میں ایک چھاگلہ گلی بھی تھی۔ شادی کے بعد پونجا جناح نے یہیں مکان کرائے پر لے کر رہنا شروع کر دیا۔یہاں قریب ہی ایک تاجر نور محمد لالن رہتے تھے، جن کے پونجا جناح سے دوستانہ مراسم تھے۔ جب کراچی میں علی گڑھ طرز کے تعلیمی ادارے سندھ مدرستہ الاسلام کے قیام کی تحریک چلی تو اس کے لیے جن دو ممتاز مسلمانوں نے مالی مدد کی ان میں پونجا جناح اور نور محمد لالن بھی شامل تھے۔چھاگلہ گلی والے اسی مکان میں پونجا جناح کے گھر 25 دسمبر 1876 کو ایک بچہ پیدا ہوا، جس کا نام اس کے ماموں قاسم موسیٰ نے محمد علی رکھا، جس میں بعد میں جناح بھائی کا لاحقہ بھی شامل ہو گیا۔پونجا جناح کے گھر شیریں سے آٹھ بچے پیدا ہوئے جن میں محمد علی، رحمت بی، بندہ علی، مریم بی، احمد علی، شیریں بی، فاطمہ بی اور ایک بچہ شامل تھا، جس کا انتقال ہو گیا تھا اور اس کا نام رکھا نہیں جا سکا تھا جبکہ بعد میں بچے کی والدہ بھی وفات پا گئیں۔پونجا جناح نے معلمی چھوڑ کر اپنا خاندانی کاروبار سنبھال لیا کیونکہ تیزی سے پھیلتے ہوئے کاروبار کو ان کی ضرورت تھی۔ پونجا جناح جلد ہی برطانوی کمپنیوں کو اپنا مال برآمد کرنے لگے، جس کے لیے انہوں نے بمبئی اور دیگر ساحلی شہروں میں بھی اپنی کمپنی کے دفاتر قائم کر لیے۔ان کے پاس شکار اور تجارت کی غرض سے کشتیوں کا ایک بیڑہ بھی تھا۔محمد علی جناح ابھی چوتھی جماعت میں پڑھتے تھے کہ ان کے والد کو کاروبار میں خسارہ ہوا۔ اس دور میں پونجا جناح پر کئی مالی مقدمات درج ہوئے۔ وہ ان میں بری تو ہو گئے لیکن ان کی کمپنی دیوالیہ قرار دے دی گئی، جس کی وجہ سے محمد علی جناح کو وقتی طور پر اپنی تعلیم ترک کرنا پڑی اور وہ اپنے والد کا ہاتھ بٹانے لگے۔ والد محمد علی کو گھر پر پڑھاتے تھے۔اعلیٰ تعلیم کے لیے جب پونجا جناح نے اپنے بیٹے کو ولایت بھیجنے کا فیصلہ کیا تو ان کی والدہ نے شرط رکھ دی کہ پہلے محمد کی شادی ہو گی تو وہ ولایت جا سکیں گے، کیونکہ انہیں ایک تو اندیشہ تھا کہ ولایت سے وہ کوئی گوری ساتھ نہ لے آئیں اور دوسرا والدہ کو یہ شبہ بھی تھا کہ جب وہ ولایت سے آئے تو پتہ نہیں وہ زندہ بھی ہوں گی یا نہیں۔اس وقت جناح کی عمر 16 سال کے لگ بھگ تھی اور ان کی دلہن کی عمر نو، دس سال تھی جو بمبئی کے دولت مند تاجر لیرا کھیم جی کی بیٹی تھیں۔لیرا کھیم جی برطانوی کمپنیوں کو ’اون‘ برآمد کیا کرتے تھے۔ یہ شادی دھوم دھام سے ہوئی۔ شادی کے بعد جناح ایک سال کراچی میں ہی رہے، سکول سے فراغت کے بعد وہ جنوری 1893 میں لندن روانہ ہو گئے۔محمد علی کو گئے ابھی دو سال ہی ہوئے تھے کہ کراچی میں وبا پھیل گ…