کنگلا پاکستان جون میں آٹھ ارب ڈالر کیسے ادا کرے گا؟

سینئیر صحافی اور سیا سی تجزیہ کار وجاہت مسعودنے کہا ہے کہ آئی ایم ایف نے گزشتہ برس پاکستان کے لئے چھ ارب ڈالر کے پروگرام میں ایک ارب ڈالر اضافے کا عندیہ بھی واپس لے لیاہے ۔ اگر ایک ارب ڈالر کے لئے منت سماجت ہو رہی ہے تو جون 2023 تک تقریباً آٹھ ارب ڈالر کے واجبات کیسے ادا ہوں گے؟ حالیہ مہینوں میں تجارتی خسارہ کم ہونے کی وجہ درآمدات میں کمی ہے۔ گویا یہ اشاریہ بھی مثبت کی بجائے منفی پہلو لئے ہوۓ ہے۔ اپنے ایک کالم میں وجاہت مسعود پاکسانی معیشت کی صورت حال بتاتے ہیں کہ پاکستان نے 8 دسمبر 1958 کو پہلی بار آئی ایم ایف سے قرض کی درخواست کی تھی۔ گزشتہ 64 برس میں پاکستان 23 مرتبہ آئی ایم ایف سے قرض لے چکا ہے اور ایک آدھ دفعہ کے سوا یہ پروگرام کبھی مکمل نہیں ہوئے۔ مالی سال 2021-22 میں تجارتی خسارہ 48.3 ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا۔ درآمدات میں صرف توانائی کے شعبے میں 29ارب ڈالر سالانہ اٹھ جاتے ہیں۔ ملک کی کل برآمدات کا حجم بھی تقریباً اتنا ہی ہے۔ سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے 2021 میں جو معاہدہ کیا تھا اسے عمران خان نے فروری 2022 میں اپنی حکومت جاتی دیکھ کر تیل اور بجلی کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کر کے خود ہی تباہ کر ڈالا۔ ریاستی ضمانت سے روگردانی کر کے آئندہ حکومت کے لئے کانٹوں کی فصل بو دی۔ مفتاح اسماعیل نے بڑی کاوش سے آئی ایم ایف پروگرام بحال کیا لیکن ستمبر 2022میں اسحاق ڈار وزیر خزانہ بنے تو انہوں نے طے شدہ شرائط سے روگردانی شروع کر دی۔ آئی ایم ایف پروگرام کے نویں جائزے کے لئے 31 جنوری 2023 کو پاکستان پہنچنے والی ٹیم دس روز تک مذاکرات کے باوجود کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکی۔ پاکستان نے امریکہ سے بھی درخواست کی ہے کہ آئی ایم ایف کو اپنی شرائط نرم کرنے پر مائل کرے۔ اطلاعات کے مطابق بینک آف امریکہ نے کہا ہے کہ صرف آئی ایم ایف پاکستان کی مدد کر سکتا ہے۔ دوسری طرف چین سے بھی بات چیت جاری ہے. وجاہت مسعود بتاتے ہیں کہ اٹھارویں اور انیسویں صدی کے سنگم پر تین مغربی معیشت دانوں نے کرائے کی معیشت کا تصور پیش کیا تھا. مطلب ایسی آمدنی ہے جو محنت کئے بغیر کمائی جائے کرائے کی معیشت پیداوار کی بجائے وسائل کی ملکیت کے بل پر چلائی جاتی ہے۔ عہد حاضر میں مصری معیشت دان حازم بے بلاوی اور اطالوی ماہر معیشت لوسیانی نے معدنی تیل کے بل پر امیر ہونے والی خلیجی ریاستوں کے نمونے کو کرائے پر چلنے والی ریاستوں کا نام دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسی ریاستیں اپنی پیداواری بنیاد بڑھانے کی بجائے پہلے سے موجود وسائل کے بل پر معیشت چلاتی ہیں۔ چنانچہ ان کے شہریوں کی ٹیکس ادا کرنے کی صلاحیت میں اضافہ نہیں ہوتا۔ نیز پیداواری معیشت کی عدم موجودگی میں ریاست کی سیاسی ترقی بھی رک جاتی ہے۔ اب اس نظریے کا اطلاق پاکستان پر کیجئے۔ تیل کے ذخائر ہمارے پاس موجود نہیں لیکن ہم نے ساٹھ برس پہلے آئی ایم ایف کی صورت میں تیل کا ایک کنواں دریافت کیا تھا۔ خلیجی ریاستوں کو یہ فائدہ تھا کہ انہیں معدنی وسائل سے ملنے والی آمدنی کسی کو واپس نہیں کرنا تھی لیکن ہمیں تو قرض واپس بھی کرنا تھا .. وجاہت مسعود کہتے ہیں کہ ہم 23 مرتبہ آئی ایم ایف سے قرض لے چکے ہیں۔ اس دوران سیٹو اور سینٹو نیز افغان جنگ کے طفیل بھی ڈالروں کی ریل پیل رہی۔ جی ڈی پی کے مقابلے میں ٹیکس کی شرح محض 9 فیصد ہے۔ قرض کا حجم جی ڈی پی کے 80فیصد کو پہنچ رہا ہے۔پیداواری معیشت کی عدم موجودگی میں سیاسی ارتقا بھی مفلوج ہو چکا۔ فیصلہ سازی پر اجارہ رکھنے والے ادارے اور گروہ مراعات یافتہ طبقے پر ٹیکس لگانے کے روادار نہیں۔ چنانچہ سارا بوجھ عوام پر ڈالا جا رہا ہے۔ معیشت سکڑنے سے عام آدمی کی قوت خرید کمزور ہوتی ہے جسے وہ مہنگائی کا نام دیتا ہے۔ خلیج کے ممالک عالمی معیشت کے آئندہ خدوخال سمجھ کر اپنا راستہ بدل رہے ہیں۔ ایران اور سعودی عرب میں تعلقات بحال ہو رہے ہیں۔ اسرائیل کے ساتھ معاملات سدھر رہے ہیں۔ اگر کرائے کی معیشت خلیجی ممالک میں ناقابل عمل ہے تو ہمیں بھی سمجھنا چاہئے کہ ہماری دھرتی کرائے کے لئے خالی نہیں ہے۔