ٹی ٹی پی سیاسی جماعتوں پر حملے کی پالیسی سے پیچھے ہٹ گئی

ماضی میں مختلف سیاسی قائدین پر حملے کرنے والی تحریک طالبان پاکستان ٹی ٹی پی نے اپنی ماضی کی پالیسی کو ترک کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں پر حملے ان کی پالیسی کا حصہ نہیں ہیں۔کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے مرکزی ترجمان محمد خراسانی نے کہا ہے کہ پاکستان میں سیاسی جماعتوں کو نشانہ بنانا کبھی بھی ان کی پالیسی کا حصہ نہیں رہا۔

تجزیہ کاروں کے مطابق ایک طویل عرصے کے بعد یہ پہلا ایسا بیان ہے جو ٹی ٹی پی کے ماضی کے اطوار سے مختلف طرزعمل کا عندیہ دیتا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو کی جانب سے بھیجے گئے ایک سوال کے جواب میں کہ ٹی ٹی پی نے 2018 اور 2013 کے عام انتخابات کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کو واضح ہدف بنایا تھا تو اب اس پالیسی میں تبدیلی کیوں آئی ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ ’ہماری طرف سے سیاسی جماعتوں کو ہدف کبھی بھی پالیسی کے تحت نہیں بنایا گیا، البتہ بعض ایسے افراد کو ٹارگٹ کیا گیا جو عملاً فوج کے ہر اول دستے کا کردار ادا کرتے ہیں۔‘

سیاسی جماعتوں اور ٹی ٹی پی کے درمیان تعلقات پر اس حالیہ بحث کا آغاز اس وقت ہوا جب گذشتہ دنوں ٹی ٹی پی نے ایک بیان میں کہا کہ ’عوامی نقصانات سے بچنے کے پیش نظر سیاسی جلسے جلوس اور پولنگ سٹیشن طالبان کا ہدف نہیں۔‘اس وضاحتی بیان میں اس تنظیم کا الزام تھا کہ بعض حلقوں کی طرف سے ٹی ٹی پی کے نام پر آئندہ ممکنہ انتخابات کے حوالے سے کچھ جعلی اعلامیے نشر کر کے عوام میں خوف و ہراس پھیلایا جا رہا ہے۔

تنظیم کا بیان تھا کہ ’اس باطل جمہوری نظام کے خلاف جنگ میں بھی ہم اپنے اہداف واضح رکھتے ہیں لہٰذا عوامی نقصانات سے بچنے کے پیش نظر دوران الیکشن سیاسی جماعتوں کے عوامی جلسے جلوس اور پولنگ سٹیشن ہمارا ہدف ہرگز نہیں۔‘

تجزیہ کاروں کے مطابق ایک طویل عرصے کے بعد یہ پہلا ایسا بیان ہے جو طالبان کے ماضی کے اطوار سے مختلف طرزعمل کا عندیہ دیتا ہے اور ان کا سیاسی جھکاؤ بھی کسی حد تک ظاہر کرتا ہے۔عسکریت پسندی کے موضوع پر گہری نظر رکھنے والے خیبرپختونخوا کے معروف تجزیہ کار ڈاکٹر سید عرفان اشرف نے ٹی ٹی پی کے اس بیان پر بتایا کہ یہ بیان پچھلے تقریباً 20 سالوں سے جاری ایک تسلسل سے غالبا علیحدگی ظاہر کرتا ہے۔’یہ ایک عدم تسلسل اور ماضی سے بریک ہے۔ لیکن سوچنا چاہیے کہ یہ بریک کیوں لیا جارہا ہے کیونکہ تقریباً پچھلی دو دہائیوں میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ٹی ٹی پی نے کسی کو نشانہ نہ بنایا ہو۔ پہلی مرتبہ ایسے بیان کا سامنے آنا حیران کن ہے۔‘

حالیہ بیان کی تصدیق اور اس حوالے سے طالبان کا موقف انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ شریک کرتے ہوئے ٹی ٹی پی کے ترجمان محمد خراسانی نے اس تاثر کی نفی کی کہ اس پالیسی تبدیلی سے کسی ایک سیاسی جماعت کو فائدہ پہنچانا مقصود ہے۔’ہم اس جمہوری نظام کو غیراسلامی نظام سمجھتے ہیں۔ البتہ اس کی محافظ پاکستانی سکیورٹی فورسز ہیں، اس لیے ہماری کارروائیوں کا دائرہ کار بھی سکیورٹی ادارے ہی ہیں۔‘ترجمان ٹی ٹی پی نے مزید بتایا کہ ان کی تنظیم نے 2018 میں بھی کسی خاص پارٹی کو ہدف نہیں بنایا۔’البتہ ہم بارہا وضاحت کرچکے ہیں کہ اس جنگ کا جو بھی عملی حصہ بنے گا وہ اس جنگ میں شریک سمجھا جائے گا۔‘

تجزیہ کار عرفان اشرف نے ٹی ٹی پی کے بیانات پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ ماضی کے برعکس طالبان کے فیصلے سیاسی ہوچکے ہیں۔’پہلے وہ شدت پسندانہ فیصلے کیا کرتے تھے، تاہم اب وہ زیادہ تر سیاسی فیصلے کرتے ہیں جو اس صورت میں ہوتے ہیں جب ایک تنظیم درپردہ کسی کے ساتھ مذاکرات میں ہوتی ہے یا پھر مراعات لینے کی کوشش میں ہوتی ہے اور یا پھر ٹی ٹی پی کے لیے عوام کے دلوں میں نرم گوشہ پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ وہ مین سٹریم میں آسکیں۔‘ڈاکٹر عرفان اشرف نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ٹی ٹی پی کے سیاسی بیانات کے سامنے آنے کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اب پاکستان میں عوامی سطح پر سوچ بدل چکی ہے۔’جنرل فیض حمید اور عمران خان کے بیانیے کے بعد ہر جانب سے آوازیں اٹھنے لگیں اور عوام میں یہ تاثر پایا جانے لگا کہ جو کچھ ہو رہا ہے یہ فرد واحد یا چند لوگوں کا کام نہیں ہوسکتا۔’اس سے ریاست پر بھی دباؤ بڑھتا ہے اور طالبان پر بھی۔ طالبان بھی اس لیے بیان دیتے ہیں اور پھر پھر پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔‘انہوں نے کہا کہ پہلے طالبان کے حوالے سے عوامی سوچ الجھی ہوئی گتھی تھی تاہم وقت کے ساتھ یہ سلجھتی جارہی ہے۔

’اس کو مزید تقویت اس لیے بھی ملی کہ کئی پریس کانفرنسز ہوئیں جن میں سوال اٹھایا گیا کہ جو حساس اور ذاتی ڈیٹا ملک کے مخصوص اداروں جیسے کہ نادرا وغیرہ کے پاس ہوتا ہے وہ بھتہ خوروں کے پاس کیسے آیا۔’المیہ یہ ہے کہ ان پریس کانفرنسز کو نظرانداز کردیا جاتا ہے اور ان کی شنوائی نہیں ہوتی۔‘

محمد خراسانی نے وضاحت میں مزید کہا کہ 2018 میں بھی ’ہم نے کسی خاص پارٹی کو ہدف نہیں بنایا البتہ اس کی ہم بارہا وضاحت کرچکے ہیں کہ اس جنگ کا جو بھی عملی حصہ بنے گا وہ اس جنگ میں شریک سمجھا جائے گا۔‘

پشتونوں کے حقوق اور عسکریت پسندی کے موضوع پر خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے تجزیہ کار اور جامعہ پشاور کے ایریا سٹڈی سینٹر کے سابق چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر سرفراز خان نے کہا کہ ٹی ٹی پی کے بیان پر یقین نہیں کیا جاسکتا ہے کیونکہ وہ دوبارہ حملہ کرکے اپنے لیے کوئی جواز بنا کر اس کو اپنے کسی گروپ کا عمل قرار دے دیں گے۔‘ماضی میں عوامی نیشنل پارٹی، حتیٰ کہ قاضی حسین احمد، مولانا فضل الرحمن پر بھی حملے ہوئے ہیں جن کی طالبان نے ذمہ داری قبول بھی کی ہے۔’طالبان سرے سے پاکستان کا آئین نہیں مانتے، انتخابی عمل نہیں مانتے تو پھر کیسے ممکن ہے کہ وہ حملے نہیں کریں گے؟‘

یہ سوال جنوری میں وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے اس بیان کے ایک دن بعد سامنے آیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ان کی موجود اتحادی حکومت نے تحریک انصاف کی سابق ​​حکومت کی طرف سے کالعدم گروپ کے ساتھ مذاکرات کی پالیسی کو ختم کر دی ہے۔ایک دن بعد ٹی ٹی پی نے اپنے ردعمل میں بظاہر دو سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لگ ن کے خلاف کارروائی کی دھمکی دی تھی۔ تازہ بیان اس اعلان کی بظاہر تردید ہے۔

فوجی افسران کی توشہ خانہ میں لوٹ مار پر خاموشی کیوں؟

Related Articles

Back to top button