عمران لانگ مارچ کے بعد دھرنا دئیے بغیر کیوں بھاگا؟

عمران خان کی جانب سے اپنے ساتھیوں کے مشورے کے خلاف من مانی کرتے ہوئے اسلام آباد لانگ مارچ شروع کرنے اور پھر دھرنا دینے کے اعلان کے برعکس اچانک اسے ختم کرنے کے فیصلوں نے پی ٹی آئی اور کپتان دونوں کا سیاسی بحران کھول دیا ہے اور اب یہ تاثر مضبوطی پکڑ رہا ہے کہ ان کے بیانیے سے ہوا نکل چکی ہے اور لوگ باہر نکلنے کو تیار نہیں۔

بھارتی گھرانوں میں پاکستانی ڈراموں کی گونج

تحریک انصاف کے اندرونی ذرائع کے مطابق عمران خان کے گرد موجودہ بیشتر افراد کو علم نہیں کہ گرم موسم میں لانگ مارچ نہ کرنے کے مشورہ کے باوجود عمران نے یہ رسک کیوں لیا اورڈی چوک تک پہنچنے سے قبل ہی انہوں نے اچانک ہی اپنا مارچ ختم کیوں کیا۔ پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران نے یہ دونوں فیصلے اپنی مرضی سے کیے یا کسی کی مرضی سے کئے، اس بارے میں یقین سے نہیں کہا جا سکتا، لیکن ایک بات ہے کہ ان سے غلط فیصلے ہوئے جس کی وجہ غلط اندازے تھے۔ تحریک انصاف کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ رات 8 بجے تک پورے پاکستان میں کہیں سے بھی کوئی بڑا قافلہ اسلام آباد کے لیے نہیں نکل پایا تھا اور اگر سپریم کورٹ حکومت کو راستے کھولنے کا حکم جاری نہ کرتی تو کپتان کا بھرم بالکل ہی ختم ہو جاتا۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار انصار عباسی کے مطابق پی ٹی آئی کے اسلام آباد کی طرف مارچ کے ڈراپ سین کے حوالے سے یہ تاثر بھی غلط ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے خفیہ طور پر مداخلت کی جس کے بعد عمران خان نے دھرنا نہ دینے کا فیصلہ کیا۔ ان کے مطابق دفاعی فورسز کے قابل بھروسہ ذرائع دو ٹوک الفاظ میں اس معاملے میں فوج کے کسی کردار سے انکار کرتے ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ نے نہ تو پی ٹی آئی سے کوئی رابطہ کیا اور نہ ہی انہیں مارچ ختم کرنے کی کوئی یقین دہانی کرائی، اس سلسلے میں ممکنہ ڈیل کے حوالے سے جو تاثر دیا جا رہا ہے وہ بالکل غلط ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی آخری مداخلت اتحادی حکومت اور پی ٹی آئی والوں کے درمیان دھرنے والے دن ثالثی کی ایک کوشش میں سامنے آئی تھی۔ اس ملاقات میں بھی دونوں فریقوں سے اسٹیبلشمنٹ نے کہہ دیا تھا کہ سیاست دان مل بیٹھ کر اپنے مسائل خود حل کریں اور باہر سے کوئی مداخلت نہیں ہوگی۔ لیکن یہ ملاقات بھی بے نتیجہ رہی جس کے بعد حکومت نے اسلام آباد میں آرٹیکل 245 کے تحٹ فوج طلب کر لی۔

سیاسی تجزیہ کاروں کے سامنے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ عمران نے تو مسلسل یہ موقف اختیار کیا کہ الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہونے اور قومی اسمبلی کی تحلیل تک انکا مارچ اور دھرنا ختم نہیں ہوگا، پھر انہوں نے ایسا کیوں اور کس کے کہنے پر کیا؟ انصار عباسی کے بقول پی ٹی آئی کے سینئر رہنمائوں کو بھی اس فیصلے کی وجوہات بارے کچھ علم نہیں۔ ایک رہنما نے اندازہ لگاتے ہوئے کہا کہ شاید عمران نے ایسا ملک کی معیشت کیلئے کیا ہوگا جو سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے متاثر ہو رہی ہے۔ ایک اور رہنما کا کہنا تھا کہ وہ وجہ نہیں جانتے لیکن مارچ پہلے ہی تھکا دینے والا ثابت ہو رہا تھا اور اسے مزید دن تک جاری رکھنا ممکن نہیں تھا۔

لیکن پی ٹی آئی کا حقیقی آزادی مارچ ختم کیے جانے کے حوالے سے تین وجوہات بتائی جا رہی ہیں۔ اول، عمران اپنے لانگ مارچ کے ساتھ اسلام آباد میں متاثر کن تعداد میں لوگوں کو لانے میں ناکام ہوئے۔ دوم، سپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی اور توڑ پھوڑ اور آتش زدگی کے بعد انہیں عدالت عظمیٰ کی طرف سے سخت کارروائی کا ڈر تھا۔ سوم، ریڈ زون میں فوج تعینات کر دی گئی تھی اور عمران کے ورکر نے وفاقی دارالحکومت میں جو تباہی مچا دی تھی اس کے بعد سخت ایکشن کا امکان تھا۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں داخل ہوتے وقت عمران کے ساتھ صرف چند ہزار لوگ تھے اور باعزت دھرنا دینے کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ عمران رات 12 بجے ہی اسلام آباد میں داخل ہو چکے تھے لیکن انہوں نے لوگوں کی کم تعداد کا اندازہ لگاتے ہوئے ہوئے قافلے کو بہت آہستہ چلایا اور انتظار کیا کہ مجمع بڑا ہوتا جائے، لیکن ایسا نہ ہو پایا چنانچہ 26 مئی کی صبح اپنے خطاب میں عمران نے مارچ ختم کرنے کا اعلان کیا اور 6؍ دن بعد کی اگلی ڈیڈ لائن دیدی۔ تاہم سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عمران خان کے لانگ مارچ کے غبارے سے ہوا نکل چکی ہے اور جون کی سخت گرمی میں لوگوں کا انکی خاطر دوبارہ بھی سڑکوں پر نکلنے کا کوئی امکان نہیں۔

Related Articles

Back to top button