سہیل وڑائچ نے جبر کا نظام ختم ہونے کی پیش گوئی کر دی

پاکستانی صحافت کی معروف آواز سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ ساون کتنا بھی لمبا چلے اس نے بالآخر ختم ہونا ہوتا ہے۔ اندھے کتنا ہی جیت لیں بالآخر بینائوں نے نابینائوں پر غالب آنا ہوتا ہے۔ بصیرت اور بصارت نے جہالت و جبر کو گرانا ہی ہوتا ہے۔ انکا کہنا ہے کہ ساون کے اندھے کو ہرا ہرا  ہی نظر آتا ہے ۔ لیکن جب مظلوم کا سرخ خون گرتا ہے تو پھر نہ ساون رہتا ہے اور نہ ہی ہرا رنگ کیونکہ خون کا سرخ رنگ ہر دوسرے رنگ کو کھا جاتا ہے۔ یہ لال رنگ حبس، جبر اور ظلم کے نظام کو توڑ دیتا ہے۔ آپ اس کو انقلاب کہہ لیں، جمہوریت کی آزادی کہیں یا فکر و نظر کی جولانی کا نام دیں۔ ایک نہ ایک دن، کوئی نہ کوئی تو عوام کو ساون کے اس اندھے پن سے چھٹکارا دلوا ہی دے گا۔

سہیل وڑائچ نے روزنامہ جنگ کے لیے اپنے کالم میں معاشرے کی ایک گہری فکری بیماری کو نہایت مؤثر علامتی انداز میں بیان کیا ہے۔ یہ بیماری ہے ساون کے اندھے پن کی۔ ایک ایسا فکری اندھا پن، جو صرف ایک رنگ دیکھتا ہے، اور باقی تمام سچائیوں سے انکار کرتا ہے۔پرانے وقتوں کی کہاوت کو بنیاد بناتے ہوئے سہیل وڑائچ لکھتے ہیں کہ "ساون کے اندھے کو ہمیشہ ہرا ہرا ہی نظر آتا ہے”۔ اس کہاوت کے پیچھے ایک گہرا فکری اشارہ ہے کہ جب کوئی شخص صرف ایک رخ دیکھنے کا عادی ہو جائے، تو وہ زندگی کے باقی رنگوں کو پہچان ہی نہیں پاتا۔

سینیئر صحافی کہتے ہیں کہ پہلے ساون خوش گوار ہوتے تھے، وہ ٹھنڈی ہوائیں لاتے اور رومانس کی فضا پیدا کرتے تھے۔ لیکن اب ساون خوف لاتا ہے، یہ سیلاب، طغیانی، تباہی اور نفسیاتی گھٹن کا باعث بنتا ہے۔ آج کا ساون، صرف موسم کی علامت نہیں بلکہ معاشرتی اور نظریاتی طوفان کی علامت بن چکا ہے۔ وہ اعتراف کرتے ہیں کہ وہ خود بھی ساون کے اندھوں میں شامل ہیں، انہیں بھی صرف ہرا ہرا نظر آتا ہے۔ لیکن وہ اسے بیماری سمجھتے ہیں، جس کا علاج ضروری ہے۔ ان کے مطابق، ہمارے اردگرد موجود بیشتر طاقتور لوگ اسی نظریاتی اندھے پن کا شکار ہیں۔ یہ لوگ صرف اپنی رائے کو درست سمجھتے ہیں، اور دوسروں کی سوچ کو رد کر دیتے ہیں، یہ ہر اختلافی آواز کو خاموش کروانا چاہتے ہیں چونکہ انہیں سچ سننے کی عادت نہیں۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ یہ رویہ صرف فرد کا نہیں بلکہ ایک اجتماعی بیماری ہے۔ ایسے میں معاشرہ یک رنگ ہو جاتا ہے، جہاں تنقید، اختلاف، اور مکالمہ دم توڑ دیتے ہیں۔ سہیل وڑائچ لکھتے ہیں کہ انہوں نے اپنی فکری بے چینی کے علاج کے لیے ایک "پیر کامل” کی تلاش شروع کی، جو صرف ہرا نہ دیکھے بلکہ باقی رنگوں کو بھی پہچان سکے۔ ان کو ایک ایسے شخص کی تلاش ہے جو دوسروں کے نظریات کو بھی سمجھنے، انہیں تسلیم کرنے اور انہیں عزت دینے کا حوصلہ رکھتا ہو۔ انکے مطابق یہی وہ فکری وسعت ہے جس کی آج کے پاکستان کو ضرورت ہے۔

سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ بلھے شاہ جیسے صوفی شاعر بھی اسی اندھے پن کو سمجھتے تھے۔ انہوں نے کہا تھا: "چل بلھیا چل اوتھے چلیے جتھے سارے انھے”۔ ان کا کہنا ہے کہ بلھے شاہ بھی اس سماجی رویے سے نالاں تھے جہاں طاقت، مذہب اور انصاف کے ایوانوں میں بھی ساون کے اندھے قابض تھے۔ وہ روحانی اندھوں کو جسمانی اندھوں سے زیادہ خطرناک سمجھتے تھے کیونکہ وہ سچائی کی تلاش بند کر چکے ہوتے ہیں۔

سہیل وڑائچ خود احتسابی کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ وہ بھی ایک "جھلے” ہیں جو خود کو عقل و دانش کا منبہ سمجھتے ہیں۔ ان کے بقول، یہ جھلا پن ہر طرف پھیل چکا ہے۔ ہر شخص خود کو حق پر، اور دوسروں کو باطل پر سمجھتا ہے۔ اسی کیے اختلاف رائے کو برداشت کرنا ناممکن ہو گیا ہے۔ یہی فکری گھٹن معاشرے کو انتہا پسندی، دہشت گردی، اور فکری تنگ نظری کی طرف لے جا رہی ہے۔

تاریخی تناظر میں سہیل وڑائچ یاد دلاتے ہیں کہ ساون جتنا بھی لمبا ہو، ایک دن ختم ہو کر رہتا ہے۔ ظلم، جبر اور اندھا پن جتنا بھی چھا جائے، آخرکار بصیرت، روشنی اور فکری آزادی غالب آ کر رہتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ جب ساون کے ہرے رنگ پر مظلوم کا سرخ خون لگتا ہے، تو ہرا رنگ بھی مٹ جاتا ہے۔ تب صرف ایک ہی رنگ بچتا ہے یعنی خون کا رنگ اور یہی خون، تبدیلی، انقلاب، اور شعور کا ذریعہ بنتا ہے۔

سہیل وڑائچ کے مطابق، آج کے دور میں ہر گیدڑ نے شیر کی کھال پہن لی ہے، جب ہر ایک شخص خود کو سچائی اور انصاف کا مرکز سمجھے تو اس فکری طوفان کا مقابلہ قومی شعور اور نظریاتی بصیرت سے ہی ممکن ہے۔

سہیل وڑائچ اپنی تحریر کا اختتام کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کوئی تو آئےبگا، جو ہمیں ساون کے اندھے پن سے نجات دلائے گا۔ کوئی تو ہو گا جو ہرے رنگ کے ساتھ ساتھ باقی رنگ بھی دکھائے گا۔ وگرنہ ایک دن یہ ساون سب کچھ بہا لے جائے گا۔

 

Back to top button